مچھلی کا کیا گناہ ہے ؟کہ ہم اسے نجس قراردیں ۔[ ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت ان موضوعات سے بے نیاز ہے ] ۔جو کوئی بے زبان جانوروں کو اس وجہ سے گنہگار قراردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوت گویائی نہیں بخشی تو حقیقت میں وہ ان جانوروں پر ظلم کررہا ہے۔
اگر کوئی کہنے والا یہ بات کہے کہ: اللہ تعالیٰ نے اسے قوت گویائی عطا کی تھی مگر وہ خاموش رہی؛ تواس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : اگر یہ واقعہ حقیقت میں پیش آیا ہے تویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کرامت اور آپ کی تعظیم و قدر کی ہے ۔ کرامت توآپ کو سلام کرنے سے ظاہر ہوگئی تھی؛ قدرت حاصل ہونے کے باوجود کلام نہ کرنے میں کوئی کرامت نہیں ہے۔ جب مچھلی نے آپ کو قدرت ہونے کے باوجود سلام نہیں کیا تو اس میں پھر کیاکرامت ہوئی۔بلکہ اس میں تو پاکیزہ چیزوں کو حرام کرنے والی بات ہے ۔ کیونکہ مچھلی پاکیزہ اور حلال چیز ہے ‘مگر اس قصہ کی روسے اسے حرام قراردیاگیا ہے ؛ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے عقوبت ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿فَبِطُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلُّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا﴾ [النساء۱۶۰]
’’تو جو لوگ یہودی بن گئے، ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں ، جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے۔‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مچھلی کو حرام سمجھنا یہودیوں کے اخلاقیات میں سے ہے ۔ اور رافضی چونکہ ان کے بھائی ہیں ‘ اس لیے ان سے اس قسم کی باتیں بعید نہیں ہیں۔
چھٹی بات : ان سے کہا جائے گا کہ: ’’ یہاں پر مقصود تو پانی کے خشک ہونے سے حاصل ہوگیا تھا۔ تو پھر مچھلی کے آپ کوسلام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور نہ ہی کوئی ایسا سبب موجود تھا جس کا تقاضا ہو کہ ایمان کی مضبوطی کے لیے کوئی خارق عادت واقعہ [یا کرامت ]ظاہرہوجائے ۔اس لیے کہ پہلی بات سے حجت قائم ہوگئی اور ضرورت پوری ہوگئی ؛ جب کہ دوسری بات میں نہ ہی حجت تھی اور نہ ہی ضرورت۔
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام کے لیے سمند ر کے پھٹ جانے میں پانی کے خشک ہوجانے سے بڑا معجزہ تھا۔ لیکن پھر بھی مچھلیوں نے آپ پر سلام نہیں کیا۔ اور جب آپ خضر علیہ السلام کے پاس گئے تو آپ کے پاس توشہ دان میں نمک لگی ہوئی مچھلی تھی؛اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کیا ‘اوروہ ڈبے سے نکل کر پانی میں چلی گئی ‘اور اس کے جاتے ہوئے یوں لگتا تھا جیساکہ سمندر میں سرنگ بن گئی ہو۔مگر اسے نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو سلام کیا اور نہ ہی یوشع علیہ السلام ۔سمندر میں ہمیشہ مدو جزر رہتا ہے مگر اس کے بارے میں کہیں بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ کبھی کسی مچھلی نے صحابہ یاتابعین میں سے کسی ایک کو سلام کیا ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس جیسی حکایات سے ان کے فضائل و مناقب ثابت کیے جائیں ؛ جن کے جھوٹ ہونے کے بارے میں سبھی اہل علم و عقل جانتے ہیں ۔
|