بلا لیں ۔‘‘
تو آپ نے حضرت علی حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلا کر فرمایا:’’ یااﷲ! یہ میرے گھر کے لوگ ہیں ۔‘‘ [1]
مگر اس میں افضلیت اور امامت پر کوئی دلیل موجود نہیں ۔
[اشکال]:شیعہ کا یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ’’نفس رسول‘‘ بنا دیا تھا۔اتحاد محال ہے [یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک توہو نہیں سکتے]۔اب مساوات باقی رہ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام ولایت حاصل تھی ؛ پس آپ کے مساوی کے لیے بھی ایسے ہی ولایت ہوگی ۔‘‘
[جواب]:ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ مساوات کی علاوہ کوئی چیز باقی نہیں بچی۔اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔ بلکہ اسے مساوات پر محمول کرناممتنع ہے، کیوں کہ کوئی بھی شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مساوی نہیں ہو سکتا؛ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی کوئی دوسرا۔
نیز ’’اَنْفُسَنَا‘‘ کا لفظ لغت میں مساوات کے لیے نہیں بولا جاتا۔واقعہ افک میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا﴾ (النور:۱۲)
’’اسے سنتے ہی مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمان کیوں نہ کیا ۔‘‘
اس سے مومن مردوں اور عورتوں کا مساوی ہونا لازم نہیں آتا۔نیز فرمایا:
﴿فَتُوْبُوْ آاِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَبَارِئِکُم﴾ (البقرۃ:۵۴)
’’تم اپنے خالق کی طرف رجوع کرواپنے آپ کوقتل کرواللہ کے ہاں یہ تمہارے لیے بہترہے۔‘‘
یعنی آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو۔ اس سے لازم نہیں آیا کہ یہ تمام لوگ آپس میں مساوی ہوں ۔اورنہ ہی جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی وہ ان لوگوں کے مساوی ہیں جنھوں نے اسے نہیں پوجا تھا۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿وَ لَا تَقْتُلُوا اَنْفُسَکُمْ﴾ (النساء:۲۹)
’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔اگرچہ وہ برابر نہ بھی ہوں ۔[یہ مراد نہیں کہ وہ سب لوگ مرتبہ میں مساوی تھے۔ بخلاف ازیں ان میں بہت کچھ فرق مراتب پایا جاتا تھا]۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَا تَلْمِزُوا اَنفُسَکُمْ﴾ (الحجرات۱۱)
’’ اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگا ؤ‘‘
کوئی آپس میں ایک دوسرے پر طعنہ زنی یا ٹھٹھہ جوئی نہ کریں ۔یہ ممانعت تمام اہل ایمان کے لیے ہے۔یعنی کوئی
|