’’خبیث عورتیں خبیث مرد کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں ۔‘‘
ایسے روایت کیا گیا ہے کہ [ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ان کو اجازت دو ؛ خوش آمدید پاکیزہ فطرت شخص کے لیے۔‘‘[1]
یہ لفظ بھی’’ المتقی‘‘ اور لفظ ’’ المزکی‘‘کی طرح ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا oوَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا﴾ [الشمس ۹۔۱۰]
’’جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا ۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا۔‘‘
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا﴾ (التوبۃ:۱۰۳)
’’ ان کے مالوں سے صدقہ لے کر اس سے ان کو پاک کیجیے اور ان کا تزکیہ فرمائیے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ﴾ [الأعلی ۱۴]
’’ وہ انسان کامیاب ہوگیاجس نے تزکیہ نفس کیا ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکَی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآئُ ﴾
’’ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔‘‘
مگر متقی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس سے صغیرہ گناہ بھی صادر نہ ہو۔اور نہ ہی اس کے لیے خطاء اور گناہوں سے پاک ہونا شرط ہے۔ اگر متقی کے لیے یہ بات شرط ہوتی تو پوری امت میں ایک بھی متقی نہ ہوتا۔حالانکہ ایسا نہیں ہے جو بھی گناہوں سے توبہ کرلے اس کا شمار متقین میں سے ہوگا؛ اور ایسے ہی جو شخص بھی نیک اعمال سے اپنے گناہوں کو زائل کرے وہ متقی ہو گا۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنْ تَحْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا﴾ [النساء۳۱]
|