’’اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان حضرات کو پاک کرنے کے لیے دعا ایسے ہی جیسے آپ دعافرئیں کہ : ان کا تزکیہ نفس ہوجائے؛ اور انہیں پاک کردیا جائے؛ اور انہیں نیک و متقی بنادیا جائے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جس بارے میں پاک و صاف ہونا ثابت ہوجائے وہ اس حکم میں شامل ہے۔[اہل بیت کے لیے کی گئی ]یہ دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات کے لیے کی گئی دعا سے بڑھ کر نہیں ہے ؛آپ نے یوں دعا فرمائی تھی:
’’اے اللہ ! مجھے صاف کردے میرے گناہوں سے جس طرح صاف کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو میل کچیل سے ۔اے اللہ ! مجھے دھو دے میرے گناہوں سے برف اورٹھنڈے پانی او ر اولوں سے ۔‘‘
پس جس کسی سے اگر گناہ سر زد ہوجائے ‘ یا تووہ مغفرت کے لائق ہوتا ہے ‘ یا پھر اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس کا کفارہ بناکر اسے بالکل پاک کردیتے ہیں ۔ لیکن جو کوئی اپنی گناہوں میں لت پت مر گیاوہ اپنی اس زندگی میں ان گناہوں سے پاک نہیں ہوسکا ۔اور کبھی اللہ تعالیٰ انہیں صدقات کی وجہ سے گناہوں سے بالکل پاک کردیتے ہیں ۔صدقہ لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے۔پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دعا فرماتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے موقع محل اور استعداد و اہلیت کے مطابق اسے قبولیت سے نوازتے ہیں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان خواتین و حضرات کے لیے استغفار کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اہل ایمان میں کوئی گنہگار ہی نہیں پایا جائے۔ اگر حقیقت حال میں واقعی ایسا ہوتا تو کسی اہل ایمان کودنیا یا آخرت میں کوئی عذاب نہ دیا جاتا۔ بلکہ بعض افراد کی توبہ و استغفار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کردیتے ہیں ؛ او ربعض لوگوں کی نیکیاں ان کے گناہوں کو مٹا کر رکھ دیتی ہیں ۔اور کسی کے بہت سارے گناہ اللہ تعالیٰ دیگر کسی وجہ سے معاف کردیتے ہیں ۔
حاصل بحث یہ ہے کہ آیت میں جس تطہیر کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ نے جو دعا فرمائی تھی اس سے بالاتفاق اہل بیت کا معصوم ہونا مراد نہیں ۔جہاں تک اہل سنت کے نقطہ نظر کا تعلق ہے، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عصمت کا اثبات کرتے ہیں ۔ شیعہ نبی کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ کو بھی معصوم قرار دیتے ہیں ۔ پس شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ عصمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے [اور شیعہ کے نزدیک] امام بھی معصوم ہوتا ہے۔ بنا بریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج و بنات اور دیگر عورتیں عصمت کے حکم میں داخل نہ ہوں گی۔
جب یہ بات ہے تو جن چار اکابر کے حق میں تطہیر کی دعا کی گئی ہے وہ اس عصمت کو شامل نہ ہو گی جو نبی اور[شیعہ کے ہاں ] امام کیساتھ مخصوص ہے۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ان کے لیے یہ عصمت حاصل نہ ہوگی؛ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے۔اس لیے کہ آپ نے چاروں کے لیے مشترکہ دعا کی ہے ان میں سے کسی ایک کو خاص نہیں کیا۔
|