Maktaba Wahhabi

68 - 764
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا ﴾ [التوبۃ ۱۰۳] ’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں ۔‘‘ لیکن جس چیزکا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کرتے ہوئے ابتداء میں حکم دیا ہے؛ وہ فحاشی اور بے حیائی کے امور سے نہی و ممانعت کو شامل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فی الحال ایسے واقع ہوچکا ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ ان امور سے منع کررہے ہیں ؛ اور جن سے کوئی حرکت سرزد ہوگئی ہے ؛ انہیں توبہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ جیساکہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ ط اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِن الدَّنَسط اَللّٰہُمَّ اغْسِلْنِیْ مِنْ خَطَایَایَ بِالْمَآئِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ)) (متفق علیہ) ’’اے اللہ دوری کردے درمیان میرے اور گناہوں کے جیسے دوری پیدا فرمائی تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان ۔ اے اللہ ! مجھے صاف کردے میرے گناہوں سے جس طرح صاف کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو میل کچیل سے ۔اے اللہ ! مجھے دھو دے میرے گناہوں سے برف اورپانی او ر اولوں سے ۔‘‘ [1] صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ افک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی آپ کی برأت کا علم نہیں ہوا تھا؛اوراس معاملہ میں سخت بے چینی کا شکار تھے ؛ تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اے عائشہ مجھے تیرے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے پس اگر تو پاک دامن ہے تو عنقریب اللہ تیری پاکدامنی واضح کر دیگا اور اگر تم گناہ میں ملوث ہو چکی ہو تو اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو پس بے شک بندہ جب گناہ کا اعتراف کر لیتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرماتا ہے۔‘‘[2] خلاصہ کلام ! لفظ ’’رجس ‘‘ اصل میں ناپاکی کے لیے بولا جاتا ہے اور اس سے مراد شرک ہوتاہے ؛ فر مان الٰہی ہے: ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ﴾ [الحج ۳۰] ’’ پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے ۔‘‘ اس سے کھانے پینے کی وہ گندی چیزیں بھی مراد لی جاتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے:
Flag Counter