صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بالاتفاق مہاجرین [وانصار]میں سب سے افضل تھے۔
جب اس کلام کی روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا صاحب ایمان ہونا لازم آتا ہے۔تو پس یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتہائی اہم اور پرخوف و خطر سفرہجرت؛وہ سفر جس نے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا تھا؛لوگوں کے دلوں میں آپ کا جلال و قدر گامزن ہوئے‘ اسلام کا پرچم بلندکیا؛ایسے سفر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایسی ہستی کا ہی انتخاب کرسکتے تھے جو آپ کے خاص الخواص میں سے ہو۔ اور جس پر آپ کو بھر پور اعتماد اور اطمینان و بھروسہ حاصل ہو۔ اس لیے کہ تاریخ اسی چیز کو عزت کے ساتھ جگہ دیتی ہے جو تمام لوگوں کے سامنے عزت کے ساتھ عیاں و بیان ہو ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل اور دوسرے لوگوں سے امتیازیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ایسی خصوصیت ہے جس میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل و اشرف تھے۔
٭٭٭
[اعتراض]:شیعہ مصنف کا یہ قول ہے کہ ’’غم زدہ ہونا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ناقص ہونے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں : پہلی بات: ناقص کی دو اقسام ہیں ۔[اول ]:وہ نقص جو ایمان کے منافی ہو۔
[دوم]: اوروہ نقص جوکامل کی نسبت کم ہو۔
اگرمصنف کی مراد پہلی قسم ہے ؛توپھریا باطل ہے ۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ﴾ (النحل:۱۶؍۱۲۷)
’’ آپ غم نہ کریں اور جوتدبیریں وہ کر رہے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں ۔‘‘
عام اہل ایمان کے حق میں فرمایا:﴿وَ لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْاوَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْن﴾(آل عمران:۱۳۹)
’’سستی نہ کرو اور غم زدہ نہ ہو اور تم ہی غالب رہو گے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْم٭لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الحجر:۸۷۔۸۸)
’’ نیز ہم نے آپ کو سات ایسی آیات دی ہیں جو بار بار دھرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم بھی دیا ہے۔لہٰذا ہم نے مختلف قسم کے لوگوں کو جو سامان حیات دے رکھا ہے ادھر نظر اٹھا کربھی نہ دیکھیں اور نہ ہی ان کے لیے غمزدہ ہوں اور ایمان لانے والوں سے تواضع سے پیش آئیے ۔‘‘
|