میری ہمدردی کی۔ اب کیا تم میرے رفیق کو میرے لیے رہنے دو گے یا نہیں ؟‘‘
آپ نے دو مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے رنج نہ پہنچایا‘‘[1]
ایک دوسری روایت میں ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان لڑائی ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر غصہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے چل دیئے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی پیچھے ہولیے اور معافی چاہی مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاف نہیں کیا اور دروازہ بند کرلیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ اس حدیث کے آخر میں ہے :یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈر کردوبار کہا:اے اﷲ کے رسول! مجھ سے زیادتی سرزد ہو ئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اﷲتعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ تم نے مجھے جھٹلایا، مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی۔‘‘ [بخاری]
یہ صحیح حدیث ہے ؛اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت کی تخصیص ہے ۔ جیسا کہ خود فرمان نبوت سے ظاہر ہے :
’’ اے لوگو! کیا تم میرے لیے میری ساتھی کو نہیں چھوڑو گے۔‘‘ اور پھر اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا تو میں نے نبوت کا اعلا ن کہ: ’’ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں ۔‘‘ تم نے مجھے جھٹلایا ۔ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ سچ فرماتے ہیں ۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی بات کو نہیں جھٹلایا۔اور جب تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلارہے تھے اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کررہے تھے ۔‘‘
یہ توایک کھلا ہوا معاملہ ہے۔ آپ نے ان تمام لوگوں سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی جن تک رسالت پہنچی تھی۔یہ حق بات ہے کہ آپ پہلے انسان ہیں جن تک جب اللہ کا پیغام پہنچا تو فوراً ایمان لے آئے۔ یہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے موافق ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا: یارسول اللہ ! آپ کے ساتھ اس معاملہ میں اورکون ہے ؟توآپ نے فرمایا: ایک غلام اورایک آزاد ۔ اس دن آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما تھے۔‘‘[مسلم ۱؍۵۶۹؛ نسائی ۱؍۲۸۳]
جہاں تک حضرت خدیجہ ‘ حضرت زیداور حضرت علی رضی اللہ عنہم کا تعلق اس حدیث کے حوالے سے ہے ‘ توان حضرات کا شمار آپ کے کنبہ کے افراد میں ہوتا تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تمام ماجرا سنایا ۔ تو آپ نے تبلیغ کا حکم نازل ہونے سے قبل ہی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ پر ایمان لانا ابھی واجب نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کہ آپ پر ایمان لانا اس وقت سے واجب ہوا ہے جب سے تبلیغ رسالت کا حکم ملا۔ پس تبلیغ رسالت کا حکم ملنے کے بعدآزاد مردوں سب سے پہلے تصدیق کرنے والے
|