Maktaba Wahhabi

663 - 764
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس لیے کہ اس وقت ابھی یہ واجب نہیں ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت بچے تھے؛ اور بچے پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہوتا۔ کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوتبلیغ رسالت اور ایمان کی دعوت سے پہلے کسی کو تبلیغ کی ہو یا پھر ایمان کی دعوت دی ہو۔لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پا رہے تھے ؛ جب آپ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ سے اس معاملہ کی خبرملی ہوگی تو آپ بھی تبلیغ رسالت سے قبل ایمان لے آئے ہونگے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ظاہر ہوتا ہے : ’’ اے لوگو! میں تمہاری طرف مبعوث ہوا؛ میں نے اعلان کیا : ’’ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کی طرف سے رسول ہوں ۔ توتم لوگوں نے مجھے جھٹلایا ‘ ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تصدیق کی۔‘‘ صحیحین میں بھی اس طرح کی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبلیغ رسالت پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام لوگوں نے شروع میں آپ کی تکذیب کی تھی۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زیدو علی رضی اللہ عنہما آپ کے گھر میں تھے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی تکذیب نہیں کی؛ اس لیے آپ کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتاجن کو تبلیغ کی گئی ہو۔ یہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کہ: یارسول اللہ ! آپ کے ساتھ اس معاملہ میں اورکون ہے ؟توآپ نے فرمایا: ایک غلام اورایک آزاد ۔‘‘ یہ مسلم شریف کی دوسری روایات کے موافق ہے۔اس سے مرادیہ ہے کہ : جن کو دعوت دی گئی اور جن تک تبلیغ رسالت کی گئی ان میں یہ دوحضرات شامل تھے۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا : ’’اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال و جان سے میری غمخواری کی ۔‘‘ یہ بھی آپ کی خصوصیت ہے‘ جس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک و سہیم نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی دیگر متواتر روایات بھی نقل کی گئی ہیں ۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ پڑھا، تو فرمایا : ’’ یقین سمجھو کہ اللہ سبحانہ نے ایک بندہ کو دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا(چاہے جس کو پسند کرے) اس نے اس چیز کو اختیار کر لیا، جو اللہ کے ہاں ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ (یہ سن کر)رونے لگے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ: ایسی کیا چیز ہے، جو اس بوڑھے کو رلا رہی ہے، اگر اللہ نے کسی بندہ کو دنیا کے اور اس عالم کے درمیان میں ، جو اللہ کے ہاں ہے،اس نے اختیار دیا اور اس نے اس عالم کو اختیار کر لیا، جو اللہ کے ہاں ہے(تو اس میں رونے کی کیا بات ہے، مگر آخر میں معلوم ہوا کہ)۔وہ بندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب میں زیادہ علم رکھتے تھے، پھر آپ نے فرمایا کہ اے ابوبکر تم نہ روو کیونکہ یہ بات یقینی ہے سب لوگوں سے زیادہ مجھ پراحسان کرنے والا اپنی صحبت میں اور اپنے مال میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ میں اپنی امت میں اگر کسی کو
Flag Counter