Maktaba Wahhabi

661 - 764
غلط ہونا سب کو معلوم ہے۔ ایک ایسی دلیل جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو؛اور کسی بھی معارض سے خالی ہو ‘ وہ ان بیس دلیلوں سے بہتر ہے جن کے مقدمات باطل پر اور اسناد کمزور ہوں ۔ اوروہ ایسی صحیح احادیث سے ٹکراتی ہو جو کہ اس کے متناقض ہو۔ یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صحبت ایمانی میں وہ اختصاص حاصل ہے جس میں مخلوق میں سے کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ نہ ہی قدر کے اعتبار سے نہ ہی صفت کے اعتبار سے او نہ ہی نفع مندی کے اعتبار سے ۔ اس لیے کہ اگروہ وقت جمع کیا جائے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل بیٹھا کرتے تھے ؛ اور پھر حضرت عثمان و علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اجتماع کا وقت جمع کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیا جانے والا وقت ان سب کے اوقات سے دوگنا ہی نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔ جب کہ ان سب کے مابین مشترکہ اوقات کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں ہیں ۔ جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت ‘معرفت؛اور ہر معاملہ میں آپ کی تصدیق یہ سب پرایسے غالب اور ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال کی معرفت رکھنے والے کسی بھی انسان پر مخفی نہیں اور جس انسان کو اس قوم کے احوال کی معرفت نہیں ہے تو اس کی گواہی ناقابل قبول اورمردود ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی امور میں حاصل ہونے والی معاونت اور نفع کا بھی یہی حال ہے۔ ان امورکا شمار صحبت کے ان مقاصد اور محامد میں سے ہوتا ہے جن کی وجہ سے کسی صحابی کو دوسروں پر فضیلت دی جاسکتی ہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے ہر لحاظ سے وہ اقدار و صفات وخصوصیات ثابت میں جن میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ۔ اس کی دلیل :بخاری و مسلم میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اسی دوران ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے آئے اور اپنے دونوں زانو ننگے کردیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہارا ساتھی کسی سے جھگڑ پڑا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کے بعد عرض کیا: میرے اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تنازع تھا۔ میں نے جلد بازی سے کام لیا، پھر مجھے ندامت کا احساس ہوا تو میں نے کہا:’’ معاف کردیجیے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے، میں اس مقصد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: اے ابوبکر! اﷲ تمھیں معاف فرمائے۔‘‘ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کو آئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ پاکر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈر کردوبار کہا:اے اﷲ کے رسول! مجھ سے زیادتی سرزد ہو ئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اﷲتعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ تم نے مجھے جھٹلایا، مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے
Flag Counter