’’یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ۔‘‘
یہ آیت مسجد قباء کے بارے میں نازل ہوئی؛ مگر اس کا حکم مسجد قباء کے لیے بھی اور اس مسجد کے لیے بھی جو اس سے زیادہ اس حکم کی حق دار ہے یعنی مسجد نبوی شریف۔یہ توجیہ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حدیث مبارک میں ثابت ہے ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ: ’’ وہ مسجد کون سی ہے جو تقوی کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے ؟ توآپ نے فرمایا: ’’ میری یہ مسجد۔‘‘[1]
احادیث مبارکہ میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کو پیدل یا سوار ہوکر مسجد قباء آیا کرتے تھے ۔ جمعہ اپنی مسجد میں پڑھایا کرتے تھے[اور وہاں قیام کرتے ]۔ اور ہفتہ کو مسجد قباء میں تشریف لاتے۔ [2]
ان دونوں مساجد کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ۔ ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات؛ حضرت علی؛ حضرت فاطمہ او رحضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہم یہ تمام لوگ اہل بیت میں سے ہیں ۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں حضرت علی؛ حضرت فاطمہ او رحضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہم ازواج کی نسبت زیادہ خاص ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ دعا میں بطور خاص ان کا ذکر کیا ہے۔
علماء کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف ہے کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کون لوگ مراد ہیں ؟ ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے؛یہ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کاایک قول ہے۔
دوسرا قول : اس سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متقی لوگ مراد ہیں ۔اس کی تائید میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں :
’’ہر متقی مؤمن آل محمد ہے ۔‘‘ [رواہ الخلال وتمّام فی ’’ الفوائد ‘‘]
امام احمد کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے اس حدیث سے استدلال کیاہے۔ یہ حدیث موضوع ہے۔ اس روایت کو صوفیاء کی ایک جماعت نے اپنے نظریات وعقیدہ کی بنیاد بنایاہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ : آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد خاص اولیاء ہیں ۔ حکیم ترمذی نے ایسے ہی ذکر کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آل محمد سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ہیں ۔ یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے اور سید ابو جعفر رحمہ اللہ نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔لیکن کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کے اہل بیت میں سے ہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں ؛ اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایتیں منقول ہیں ۔
پہلا قول: ازواج مطہرات اہل بیت میں سے نہیں ہیں ۔ زید بن ارقم سے ایسے ہی روایت کیاگیا ہے ۔
|