دوسرا قول: أزواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیت میں سے ہیں ۔ یہی صحیح قول ہے۔ اس لیے کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعا سکھائی:
(( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّا َزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیَاتِہٖ۔))
’’اے اللہ ! رحمتیں نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی ازواج پر اور آپ کی اولاد پر ۔‘‘
اس لیے بھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کا شمار آپ کے اہل بیت میں سے کیاگیا ہے ؛ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا شمار آپ کی آل اور اہل بیت میں سے کیاگیا ہے۔اس پر قرآن کی واضح دلالت موجود ہے ۔تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا شمار آپ کی آل اور اہل بیت میں کیوں نہیں ہوسکتا؟
آیت یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا شمار آپ کے اہل بیت میں سے ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر یہ سارا کلام بے معنی ہو کر رہ جاتا ۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متقی بھی آپ کے اولیاء [دوست] ہیں ۔جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’ بیشک بنی فلاں میرے دوست نہیں ہیں ؛ بیشک میرا دوست اللہ تعالیٰ ہے او رنیکو کار اہل ایمان ہیں ۔‘‘[1]
اس حدیث میں آپ نے بیان کردیا ہے کہ آپ کے اولیاء اور دوست صالح و نیکو کار اہل ایمان ہیں ۔ ایسے ہی ایک دوسری حدیث میں آتاہے ؛آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بیشک میرے دوست متقی لوگ ہیں و ہ جہاں بھی ہوں او رجیسے بھی ہوں ۔‘‘ [المسند۵؍۲۳۵]
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [التحریم۴]
’’اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک ایماندار ۔‘‘
صحاح ستہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا ۔
’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟
آپ نے فرمایا: نہیں تم میرے اصحاب ہو‘ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور مجھ پر ایمان
|