حضرت عمران بیان رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ :’’مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قرن کے بعد دو مرتبہ قرن کا ذکر فرمایا تھا یا تین مرتبہ۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا:’’ تمہارے بعد کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر طلب و خواہش کے گواہی دیں گے۔ وہ خیانت کریں گے اور امین نہ بنائے جائیں گے۔ وہ نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہ کریں گے۔‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’ وہ قسم أٹھائیں گے ‘ حالانکہ ان سے قسم کا نہیں کہا جائے گا۔‘‘[1]
حضرت عمران رضی اللہ عنہ کو چوتھی بار[یعنی قرن چہارم ] کے متعلق شک ہے۔‘‘
حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ : ’’اور ان سے گواہی طلب کرنے سے پہلے وہ گواہی دیں گے ۔‘‘ بعض علماء کرام نے اسے مطلق گواہی پر محمول کیا ہے۔ یہاں تک کہ بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے یہ بھی مکروہ سمجھا ہے کہ کوئی انسان حق گواہی بھی حق دار کے طلب کرنے سے پہلے دے؛ جب کہ اسے صحیح گواہی کا علم بھی ہو۔ اس کی تطبیق اس دوسری حدیث کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے ‘ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے:
(( ألا أخبرکم بخیر الشہداء ؟ الذي یأتي بالشہادۃ قبل أن یسألہا )) [2]
’’ کیا میں تمہیں بہترین گواہ کے بارے میں خبر نہ دو ں ۔ وہ جوکہ پوچھنے سے پہلے ہی گواہی ادا کرے ۔‘‘
ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ : یہاں پر مراد جھوٹ کی مذمت بیان کرنا ہے۔ یعنی وہ لوگ جھوٹی گواہی دیتے ہیں ۔جیسا کہ خیانت اور ترک وفاء پر بھی ان کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ امور منافقت کی نشانیاں ہیں ۔ جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں :
’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے؛ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔ اور جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔‘‘ یہ صحیح بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔ [سبق تخریجہ]
جب کہ حق بات کی گواہی کے لیے گواہ جب اس کی ضرورت محسوس کرے ‘اور اسے پتہ چلے کہ جس کے حق میں گواہی دی جاری ہے وہ اس کا ضرورت مند ہے‘ مگراس نے گواہی دینے کے لیے سوال نہیں کیا ؛ تب بھی اس نے گواہی دیدی تو یقیناً اس نے عدل و انصاف قائم کیا۔ اور پوچھنے سے پہلے ہی اپنا واجب ادا کردیا۔یہ اس انسان سے افضل ہے جو صرف کہنے پر ہی حق ادا کرتا ہے ورنہ نہیں ۔ جیسا کہ وہ انسان جس کی امانت کسی دوسرے کے پاس ہو۔ اور وہ اس کے مانگنے سے قبل ہی اس کی امانت اس تک پہنچادے۔ یہ اس انسان سے افضل ہے جو کہ اس کے مالک کو مانگنے کی نوبت تک
|