Maktaba Wahhabi

636 - 764
پہنچادے۔ دونوں اقوال میں سے یہ قول زیادہ ظاہرہے۔ یہ مسئلہ فقہاء کرام کے اس جھگڑے کے اختلاف سے مشابہت رکھتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی چیز کا دعوی کرے ‘اور حاکم مدعی علیہ سے سوال نہ کرے؛ تو کیا وہ خود جواب کا پوچھے گا ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ وہ اس سے جواب مانگے گا۔یہاں پر مدعی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ؛ اس لیے کہ احوال کی دلالت سوال سے بے نیاز کرتی ہے۔ سو پہلی حدیث میں ہے :((ہل فِیکم من رأی رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔)) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؟اور پھر کہا : ((ہل فِیکم من رأی من صحِب رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟)) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو دیکھا ہو ؟تو یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والا صحابی ہے۔ ایسے ہی تمام طبقات میں سوال کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔یعنی اس کے بعد ہے : کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کے ساتھی کو دیکھا ہو ؟یہاں پر صاحب سے مراد دیکھنے والا ہے۔ جب کہ دوسری حدیث میں ہے: ’’دیکھو کیا تمہارے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی صحابی ہے؟ پھر تیسری بارکہا جائے گا کہ:’’ دیکھو کیا تمہارے اندر کوئی ایسا آدمی ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھنے والوں کو دیکھا ہے؟ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر صحابی کے ساتھی کاحکم صرف دیدار کے ساتھ معلق ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار پریہ حکم بدرجہ اولی زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔ بخاری کے روایت میں ان تمام طبقات کے لیے’’ صَحِب‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ یہ تمام الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں جو کہ اس مسئلہ میں نص کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں سے بعض الفاظ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے ہیں ‘اس لیے کہ آپ روایت کو بالمعنی نقل کرتے ہیں ۔ لیکن اس میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ ان میں سے ایک لفظ کے معانی دوسرے لفظ میں پائے جاتے ہیں ۔اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے گئے کلام کے معانی کے زیادہ واقف و عالم ہیں ۔ مزید برآں اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے نکلنے والا لفظ ’’رأی۔‘‘’’دیکھا‘‘ تھا؛ تو بھی یقیناً مقصود حاصل ہوگیا۔ اور اگر کسی ایک طبقہ یا تمام طبقات میں یہ لفظ ’’ صَحِب‘‘ تھا تو تب بھی مقصود حاصل ہوگیا۔ اس لیے کہ اگر اس سے دیدار مراد نہ ہوتا؛ تو پھر آپ کا مقصود واضح نہ ہوتا۔ اس لیے کہ صحبت اسم جنس ہے جس کی شرعی حد مقرر ہے؛ نہ کہ لغت میں ۔جب کہ عرف میں یہ مختلف فیہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحبت کے لفظ کو کسی شرط کے ساتھ مقید نہیں کیا۔ اور نہ ہی اس کی کوئی تقدیر مقرر کی ہے۔ بلکہ اس کے حکم کو مطلق طور پر معلق رکھاہے۔اور دیدار سے بڑھ کر اس کااطلاق کسی اور چیز پر نہیں ہوسکتا۔
Flag Counter