Maktaba Wahhabi

609 - 764
مَاتَوَلّٰی﴾ ( نساء:۱۱۵) ’’جو شخص بھی ظہور ہدایت کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا، اور مومنین کی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلے گا تو جدھر کو وہ مڑے گا ہم اس کو اسی طرف موڑ دیں گے۔‘‘ اس آیت میں مخالفت رسول اور مومنین کی راہ کو چھوڑ کر دوسرے راستوں پر چلنے کی ممانعت کی گئی ہے،اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں مذموم ہیں ۔اس لیے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی بالاجماع مذموم ہے۔جب اس امت کے لوگ کسی چیز کی حلت یا حرمت پر متفق ہوں اور کوئی شخص ان کی مخالفت کرے تو اس نے مومنین کے سوا دوسروں کی راہ اختیار کی۔اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاo یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا﴾ ’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔ اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔‘‘[الفرقان ۶۸۔۶۹] اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان تینوں میں سے ہر ایک خصلت از روئے شریعت مذموم ہے۔ پس درایں صورت جب مومنین کسی چیز کو واجب قرار دیں اورکچھ چیزوں کو حرام ٹھہرائیں اور کوئی مخالفت کرنے والا ان کی مخالفت کرے ؛ او رکہے کہ: جس چیز کو انہوں نے واجب قراردیا ہے وہ واجب نہیں ہے او رجس چیزکو حرام ٹھہرایا ہے وہ حرام نہیں ہے؛ تو یقیناً اس صورت میں وہ اہل ایمان کے راستے کو چھوڑ کر غیر کی راہ پر چلتا ہے۔ اس لیے کہ اہل ایمان کی راہ سے مراد ان کے اعتقادات اور افعال ہیں ۔ جب یہی بات ہے تو ان کی مخالفت مذموم ٹھہری ۔ اگر ان اہل ایمان کی راہ حق اورصواب نہ ہوتی تو ان کی مخالفت کرنے والے کی مذمت نہ کی جاتی۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النساء۵۹] ’’ فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹا، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔‘‘ یہاں پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کے حکم کو تنازع کے ساتھ معلق کیا گیاہے۔ حکم شرط کے ساتھ معلق ہوتا ہے ۔ جب شرط نہ پائی جائے تو حکم نہیں پایا جاتا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ عدم تنازع کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا واجب نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا اجماع حق اور صواب ہے۔ اس
Flag Counter