﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ﴾ (البقرۃ:۱۴۳)
’’اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وسط بنایا تاکہ تم دوسروں پر نگاہ رکھو۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَي النَّاسِ﴾ [الحج۷۸]
’’ اسی نے تمھارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی، تاکہ رسول تم پر شہادت دینے والابنے اور تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو۔‘‘
جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امت کو شاہد کا درجہ دیا گیا ہے تو ان کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس بات کی شہادت دیں گے۔اوروہ اپنی اس شہادت و گواہی میں عدل و انصاف سے کام لینے والے ہوں ۔ اگر یہ امت اﷲ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام اور محرمات کو حلال قرار دینے والی ہوتی؛اور جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے معاف رکھا ہے ‘ اسے واجب کرنے والی ہوتی؛ اور اس کے واجبات کو ساقط کرنے والی ہوتی تو اس کو شاہد نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اگر اس امت کے افراد قابل مدح اشخاص کی مذمت کرتے اور مذموم اشخاص کی مدح میں رطب اللسان ہوتے تب بھی وہ اس منصب پر فائز نہیں کیے جا سکتے تھے۔ بنا بریں جب یہ امت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کی گواہی دے تو اس کااس گواہی میں صادق ہونا؛ اور جس چیز کی گواہی دے رہے ہیں اس کا عالم ہونا ضروری ہوجاتا ہے ۔اسی طرح جب یہ بالاتفاق کسی کے نیک یا بد ہونے کی شہادت دیں ؛ یا کسی کے ایسے فعل کی گواہی دیں جس پر وہ ثواب کا مستحق ہو‘ اور دوسرے کسی کے متعلق ایسے فعل کی گواہی دینا جس پر وہ عقاب کا مستحق ہو‘ تو ان کی یہ گواہی قبول کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ لوگوں پر گواہی دینا ان کے ممدوح یا مذموم افعال کو شامل ہوتاہے۔اس لیے کہ کسی کے بارے میں یہ گواہی دینا کہ فلاں فرمانبردار ہے اور فلاں نافرمان ہے ؛ یہ ان کے افعال اور افعال کے احکام اوران کی صفات کو متضمن ہوتی ہے اور یہی مطلوب ہے۔
صحیحین میں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
’’بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس جنازے والے کی تعریف بیان کی گئی۔توآپ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا تو اس کی برائی بیان کی گئی، تو آپ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی ۔لوگوں نے پوچھا کہ:یارسول اللہ! کیا چیز واجب ہو گئی؟ توآپ نے فرمایا: ’’جس جنازہ پر تم نے خیر کے الفا ظ کہے ؛ اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔اورجس جنازہ پر برے الفاظ کہے ‘ اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی ۔ تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔‘‘[متفق علیہ و رواہ الترمذي و النسائی و ابن ماجۃ ]۔
نیز اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ
|