Maktaba Wahhabi

607 - 764
انعقاد نص خاص کی بنا پر ہوا ہے-جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت- یا اجماع و اختیار کی اساس پر؟ جب کہ دلالۃ النص کی روشنی میں آپ کی خلافت حق اور صواب ہے۔ علماء اہل سنت میں سے کسی ایک نے بھی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔ ہر ایک آپ کی خلافت کی صحت پر نصوص سے استدلال کرتا ہے۔ جب ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ جس چیز پر اجماع منعقد ہو وہ منصوص علیہ ہوتی ہے ۔تو یہی اجماع کا ذکر ہے ۔ اس لیے کہ اجماع نص پر دلیل ہے۔ جو اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوسکتا۔ [ہمارا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ نص و اجماع باہم لازم ملزوم ہے]۔ ہم یہاں پر کچھ دلائل ذکرکریں گے جن سے مطلق طور پر اجماع پر استدلال کیا جاسکتا ہے ۔ اوران سے وہ لوگ بھی استدلال کرتے ہیں جو کہتے ہیں :’’بسا اوقات اجماع کے ساتھ نص نہیں ہوتی ۔‘‘ اسکی دلیل یہ آیت ہے: ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾(آل عمران:۱۱۰) ’’تم بہترین جماعت ہو، جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘ اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ وہ ہر معروف بات کا حکم دیتے ہوں ‘ اور ہر منکر بات سے منع کرتے ہوں ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ:’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ کو واجب سمجھنا اور حرام کردہ کو حرام سمجھنا ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ امت پر واجب ہے کہ ہر اس حکم کو واجب سمجھیں جیسے اللہ اور اس کے رسول نے واجب ٹھہرایا ہو۔اورہر اس چیز کو حرام سمجھیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہو۔اس صورت میں یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ وہ کسی حرام کو واجب قرار دیں یا پھر کسی واجب کو حرام ٹھہرائیں ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ حق بات بیان کریں اور خاموش نہ رہیں ۔ پھر حق کے بیان سے خاموش رہنا اور اس کی نقیض باطل کی تائید میں بولنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تویہ لوگ برائی کا حکم دینے والے اور نیکی سے منع کرنے والے ہوتے جو کہ نص صریح کے خلاف ہے۔ نظر برایں اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت حرام و منکر ہوتی تو اس سے لوگوں کو باز رکھنا امت پر واجب اور اس سے خاموش رہنا ناروا ہوتا اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت واجب ہوتی تو یہ ایک بڑی نیکی تھی، جس کا حکم دینا نہایت ضروری تھا۔جب ایسا ہوا نہیں تو معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اس وقت نہ ہی معروف تھی؛ نہ ہی واجب اورنہ ہی مستحب۔اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں کوئی برائی نہیں تھی۔یہی چیز ثابت کرنا یہاں پر مطلوب و مقصود ہے۔مزید برآں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (التوبہ:۷۱) ’’مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ہم درد ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ۔‘‘ اس سے استدلال پہلے گزر چکا ہے۔ نیز فرمایا:
Flag Counter