حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ لشکر کے ساتھ اس وقت روانہ ہوئے تھے جب آپ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تھی۔ اسی لیے آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یاخلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔
باقی جن لوگوں کا ذکر رافضی مصنف نے کیا ہے ؛ انہوں نے بیعت کرلی تھی سوائے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کے ۔آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب تھے۔ جب آپ نے وفات پائی تو خالد رضی اللہ عنہ نے کہا :’’میں اور کسی کا نائب نہیں بننا چاہتا۔‘‘یہ کہہ کر آپ نے ولایت چھوڑ دی ؛ ورنہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اقرار کرتے تھے۔ یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے سوا سب صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی۔
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر بنو ہاشم کا تعلق ہے، ان میں سے کوئی بھی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کیے بغیر فوت نہیں ہوا تھا۔ البتہ ایک قول کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ بعد آپ کی بیعت کی تھی۔جبکہ دوسرے قول کے مطابق انھوں نے آپ کے انتخاب کے دوسرے دن بخوشی بغیر کسی سختی کے آپ کی بیعت کر لی تھی۔
پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے سوا سب صحابہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی بیعت میں شرکت کی تھی۔بنو ہاشم یا کوئی دوسرا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے نہیں رہا۔ جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر تمام لوگوں کا اتفاق ہوگیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ خلافت فاروقی میں فوت ہوئے تھے۔اس لیے بیعت عثمانی کے دور کو نہیں پاسکے۔اس کا سبب معروف ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ ایک امیر انصار میں سے ہو‘ [ اوروہ امیر منتخب ہوجائیں ] اور ایک امیرمہاجرین میں سے ہو۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا مطالبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص اور اجماع امت کی روشنی میں صحیح نہیں تھا۔
جب اجماع کے خلاف ان میں سے کسی ایک کی غلطی ثابت ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجماع حق اور درست تھا۔ اور یہ فرد واحد جس کی غلطی کتاب و سنت کی روشنی میں معلوم ہوجائے اس کی غلطی شاذ ہوتی ہے ؛ اس کا کوئی اعتبار نہیں کیاجاتا ۔ بخلاف اس شخص کے جو کتاب و سنت سے اپنی حجت کا اظہارکرے۔اس انسان کا خلاف معتبر ہوتا ہے۔ کبھی حق اسی کے پاس ہوتا جس کی طرف دوسروں کو بھی رجوع کرنا پڑتا ہے۔
جیسا کہ جیش اسامہ کی تنفیذ ؛ مانعین زکواۃ سے قتال اور اس طرح کے دیگر امور کے بارے میں حق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔یہاں تک کہ آپ کی رائے کا درست ہونا بعد میں واضح ہوگیا۔
شیعہ مصنف نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ بیان کیا ہے؛اس کے باطل اور جھوٹ ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں تھے۔ آپ ایک عمررسیدہ انسان تھے۔ آپ نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا تھا۔آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے‘ آپ کی داڑھی اور سر کے بال بالکل سفید ہوچکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر آپ اس بزرگ کو اپنی جگہ پر ہی چھوڑ دیتے تو ہم خود اس کے پاس چلے جاتے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اکرام کی وجہ سے فرمایا ۔
صحابہ کرام میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جس کی والدہ ‘ والد اور اولاد سب نے اسلام قبول کرلیا ہو۔ان سب نے نبی
|