’’تم قتل کرو ان مشرکوں کو جہاں بھی انہیں پا انہیں پکڑو، ان کا گھیرا کرو، اور ان (کی خبر لینے)کے لیے بیٹھ جا ہر گھات میں ، پھر بھی اگر یہ لوگ توبہ کرلیں اور(اسلام لاکر)نماز قائم کریں ، اور زکو ادا کریں ، تو تم خالی کردو ان کاراستہ۔‘‘
یہاں راستہ خالی کرنے کو ایمان ؛ قیام نماز اور ادائیگی زکواۃ کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے۔
ان لوگوں کے بارے میں کئی واقعات مشہور ہیں ۔ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے زکواۃ وصول کر لی تھی؛ مگر جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے لوگوں کووصول کردہ زکواۃ واپس کردی۔اور بعض لوگ حالات کے منتظر تھے۔پھر ان میں سے جن لوگوں کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تو پھرسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے عاملین زکواۃ ویسے ہی زکواۃوصول اور خرچ کرنے لگ گئے جیسے آپ کے عہد میں کیا کرتے تھے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عاملین زکواۃ کے نام ایک خط لکھا تھا؛ جس میں انہوں نے لکھا تھا:
’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
زکواۃ وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کیا ہے اور اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے ۔‘‘
یہ خط او راس جیسی دوسری دستاویز سے تمام علماء اسلام مسائل اخذ کرتے ہیں ۔آپ نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہیں لیا ۔ اور نہ ہی اپنے کسی قریبی کو کوئی عہدہ تفویض کیا؛ اورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی کوئی بات کی؛ بخلاف حضرت عثمان وعلی رضی اللہ عنہما ؛ ان دونوں حضرات نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بڑے بڑے منصب تفویض کیے تھے۔
اگر یہ جائز ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر اعتراض کیا جائے کہ انہوں نے مال لینے کے لیے ان سے قتال کیا تھا تو پھر کسی بھی دوسرے پر اس کی بہ نسبت بہت آسانی سے اعتراضات کیے جاسکتے ہیں ۔اور اگر حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کا دفاع واجب ہے تو پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا دفاع اس سے بھی بڑا واجب ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس لیے جنگ و قتال کیا کہ لوگ آپ کی اطاعت کریں ‘ اور آپ ان کے جانوں اور اموال کے بارے میں فیصلے کرسکیں ۔پھر اس قتال کو کیسے دین پر قتال کہا جاسکتا ہے ؟ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو ان لوگوں سے جنگیں لڑی تھیں جو اسلام چھوڑ کر مرتد ہوچکے تھے ؛ اور اللہ تعالیٰ کا ایک فریضہ ترک کررہے تھے ۔ آپ کی جنگ کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے لگ جائیں ۔ تو پھر کیا یہ دین پر قتال نہیں ہوسکتا؟
شیعہ مصنف نے جن اکابر صحابہ کا نام لیکر بتایا ہے کہ انھوں نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت میں شرکت نہیں کی تھی؛ یہ ان لوگوں پر بہتان ہے؛ ان لوگوں کا بیعت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما میں شرکت کرنا اظہر من الشمس ہے، البتہ سعد بن عبادہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔اس پر تمام سیرت نگاروں ؛ مؤرخین ؛ محدثین اوردیگراہل علم کے سلف و خلف کا اتفاق ہے۔
|