Maktaba Wahhabi

598 - 764
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا۔ بلکہ آپ کے نواسوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ۔آپ کے علاوہ مردوں اور عورتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی چار نسلوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور پایا ہو اوروہ سب اہل ایمان بھی ہوگئے ہوں ۔محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہم ؛ اور عبد اللہ بن زبیر[اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے]یہ چار نسلیں سبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے۔ اورانہیں شرف صحابیت حاصل تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ام خیر رضی اللہ عنہا بھی اسلام لے آئی تھیں ۔ یہ ایمان والوں کاگھرانہ تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی اور کا گھر اس گھر جیسا نہیں تھا۔ ضرب المثل ہے کہ ایمان کے لیے کچھ گھر ہوتے ہیں اور نفاق کے لیے کچھ گھر ہوتے ہیں ۔مہاجرین میں سے ابوبکر کا گھر ایمان کا گھر تھا۔اورانصار میں سے بنو نجار کا گھرانہ ایمان کا گھر تھا۔ رافضی کا یہ کہناکہ : ’’لوگوں نے ابو قحافہ سے کہا : ’’ تیرا بیٹا ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر میں سب لوگوں سے بڑا تھا۔‘‘ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ عمرمیں سب صحابہ سے بڑے نہ تھے۔بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بہت سارے لوگ عمر میں آپ سے بھی بڑے تھے۔ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ عنہ ۔آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سال بڑے تھے ۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑے تھے۔ ابو عمربن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وفات کے وقت تریسٹھ سال کے تھے۔ یہی عمر [بوقت وفات] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تھی۔بعض آثار میں حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو مکہ کے شہر پر لرزہ طاری ہوگیا۔ ابو قحافہ رضی اللہ عنہ جب یہ آوازسنی تو نے لوگوں سے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔ ابوقحافہ رضی اللہ عنہ بولا:’’ بہت بڑا واقعہ پیش آیا۔‘‘ ان کے بعد کون شخص خلیفہ قرار پایا۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’ تیرا بیٹا‘‘ ابوقحافہ رضی اللہ عنہ بولا: کیا بنو عبد مناف اور بنو مغیرہ اس پر راضی ہو گئے ؟ لوگوں نے کہا:’’ہاں ‘‘ ابوقحافہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا، جس کو اﷲ دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے؛اور جس سے وہ روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔‘‘[طبقات ابن سعد(۳؍۱۸۴)] پس درایں صورت امتناع اجماع کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتاہے: پہلی وجہ:....جن لوگوں کا رافضی مصنف نے ذکر کیا ہے ‘ ان میں سے سوائے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو ئی بھی بیعت سے پیچھے نہیں رہا۔وگرنہ باتفاق اہل نقل تمام لوگوں نے بیعت کرلی تھی۔بنو ہاشم کے ایک گروہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شروع میں یہ لوگ بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے مگر چھ ماہ کے بعد ان لوگوں نے بھی بغیر کسی لالچ اور بغیر کسی خوف کے بیعت کرلی۔ ٭ وہ خط جس کاذکر بعض اہل نقل کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام لکھا تھا؛ اہل علم کے ہاں وہ سراسر من
Flag Counter