ساتھ مسجد گیا۔ تو دیکھا لوگ ادھر ادھر منتشر تھے۔ کچھ لوگ انفرادی طور پر نماز میں مشغول تھے۔ چند آدمی نماز باجماعت ادا کر رہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ میں ایک قاری کو مقرر کردوں ، جس کی اقتداء میں سب لوگ مل کر نماز ادا کیا کریں تو یہ بہتر ہوگا۔ چنانچہ آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس خدمت پر مامور فرمایا۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات نکلا تو لوگ قاری کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’یہ بڑی اچھی بدعت ہے، جس نماز سے تم سو رہتے ہو وہ اس سے بہتر ہے جو تم ادا کرتے ہو، آپ کا مطلب یہ تھا کہ رات کے آخری حصہ میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ [1]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجتماعی قیام رمضان کو بدعت قرار دیا؛اس لیے کہ یہ اجتماع اس سے پہلے اس طرح سے نہیں ہواکرتا تھا۔کیونکہ جو کام شروع میں کیا جائے لغت کے اعتبار سے اسے بدعت کہتے ہیں ۔ یہ شرعی بدعت نہیں ہے ۔ اس لیے کہ شرعی بدعت جو کہ گمراہی ہے ؛ وہ بدعت ہے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو۔جیسا کہ کسی ایسی چیز کو مستحب قراردیا جائے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہ کرتے ہوں ۔اورایسی چیز کو واجب کہناجو اللہ تعالیٰ نے واجب نہ کی ہو۔ اور ایسی چیز کو حرام قراردیناجسے اللہ تعالیٰ نے حرام نہ ٹھہرایا ہو ۔اس لیے کہ ان افعال کے بجالانے کے لیے خلاف شریعت اعتقادکا ہونا لازمی ہے۔ ورنہ اگر کوئی انسان کوئی حرام کام کررہا ہو اور اس کے حرام ہونے کا اعتقاد بھی رکھتا ہو تو اس کے اس فعل کو بدعت نہیں کہا جاسکتا۔
چوتھا جواب:....اگر قیام رمضان باجماعت کوئی مذموم اورقبیح فعل ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ جب امیر المؤمنین بن گئے تھے ؛ اور کوفہ آپ کا دار الخلافہ تھا تو کم از کم آپ کوفہ میں اسے بند کردیتے۔جب کوفہ میں بھی یہ فعل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی طرح ہی جاری رہاتویہ اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔بلکہ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:’’اﷲتعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر کوایسے منور کرے جیسے آپ نے ہماری مسجدوں کو روشن کردیا۔‘‘[2]
ابو عبد الرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلا کر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس رکعات پڑھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انھیں و تر پڑھایا کرتے تھے۔[3]
عرفجہ ثقفی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قیام رمضان کا حکم دیا کرتے تھے، ایک امام آدمیوں کے لیے مقرر کرتے اور ایک عورتوں کے لیے، میں عورتوں کا امام ہوا کرتا تھا۔[4]امام بیہقی نے یہ دونوں روایتیں سنن میں نقل کی ہیں ۔
|