Maktaba Wahhabi

581 - 764
فرمایا:’’امابعد! مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہو جائے، اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آجا ؤ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور حالت یہی رہی۔‘‘[1] حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان بھر روزے رکھے۔ آپ ہمارے ساتھ ایک بھی تراویح میں کھڑے نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ رمضان کی سات راتیں باقی رہ گئیں ۔ ساتوں شب کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا حتی کہ رات کا تہائی گزر گیا۔ اس کے بعد چھٹی رات قیام نہ فرمایا۔ پھر اسکے بعد پانچویں شب آدھی رات تک قیام کیا ۔ میں نے کہا: یارسول اللہ ! اگر آپ ہمارے ساتھ نفل پڑھیں (تو کیا خوب ہو)۔ آپ نے فرمایا: ’’ جس نے فارغ ہونے تک امام کیساتھ قیام کیا تو اس کا یہ قیام رات بھر کے قیام کے برابر (موجب اجر و ثواب) ہے۔ پھر اسکے بعد چوتھی قیام نہ فرمایا پھر اسکے بعد والی یعنی شب کو آپ نے ازواج اور گھر والوں کو جمع فرمایا اور لوگ بھی جمع ہو گئے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یہاں تک کہ ہمیں فلاح فوت ہو جانے کا اندیشہ ہونے لگا۔ عرض کیا فلاح کیا چیز ہے ؟ فرمایا:’’ سحری کا کھانا۔ فرماتے ہیں پھر آپ نے باقی مہینہ ایک رات بھی قیام نہ فرمایا۔‘‘ [2] اسے امام احمد ‘ ترمذی ‘ نسائی اور ابوداؤد نے بھی نقل کیاہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں قیام کی ترغیب دیا کرتے تھے سوائے اس کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تاکیدی حکم فرماتے ہوں ۔ اور فرماتے کہ جو آدمی رمضان میں ایمان اور ثواب سمجھ کر قیام کرے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرما گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم اسی طرح باقی رہا ۔پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز میں اسی طرح یہ حکم باقی رہا۔‘‘[3] امام بخاری نے عبد الرحمن بن عبد القاری سے روایت کیا ہے کہ میں رمضان کی ایک رات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے
Flag Counter