[جواب]:ہم کہتے ہیں : تمام گمراہ اور بدعتی فرقوں میں شیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب بیانی اور افتراء پردازی کرتے ہوئے نہیں جھجکتے اورانتہائی جرأت کے ساتھ شرم و حیاء کے جذبات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔اور ایسی ایسی باتیں گھڑ لاتے ہیں جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادنہیں فرمائیں ۔ اور انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں ۔اگر چہ ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ان روایات کے جھوٹ ہونے کا علم ہوتاہے۔ اورجس کو اتنا بھی علم نہ ہو ‘ وہ انتہائی پرلے درجہ کا جاہل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہا گیاہے :
((إن کنت لا تدری فتلک مصیبۃ و إن کنت تدری فالمصیبۃ أعظم۔))
’’اگر آپ نہیں جانتے تو یہ بھی ایک مصیبت ہے۔ اور اگر جانتے ہیں تو پھر مصیبت اس سے بھی بڑی ہے ۔‘‘
اس اعتراض کا جواب کئی زاویوں سے دیا جاسکتا ہے:
پہلا جواب: ....ہم اس روایت کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل کیا ہے؟ اس کی سند کہاں ہے ؟ اور مسلمانوں کی کتابوں میں سے کس کتاب میں اس کو روایت کیاگیا ہے؟ اور اہل علم میں سے کس نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے؟
دوسرا جواب :....تمام اہل علم محدثین کا اتفاق ہے ‘ اوروہ علم ضروری کے طور پر جانتے ہیں کہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر من گھڑت جھوٹ ہے۔ جس انسان کو حدیث کا ادنیٰ سا بھی علم ہو وہ اس حدیث کے جھوٹ ہونے کو جانتا ہے۔ مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی ایک کتاب میں بھی اس روایت کو نقل نہیں کیا ۔ نہ ہی صحاح میں ؛ نہ ہی سنن میں ؛ نہ ہی مسانید اور معجمات میں اور نہ ہی اجزاء میں ۔اور نہ ہی اس کی کوئی سند معروف ہے۔نہ ہی ضعیف سند نہ ہی صحیح۔ بلکہ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔
تیسرا جواب:....احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عہد رسالت میں لوگ رمضان کی راتوں میں نماز تراویح ادا کیا کرتے تھے ۔ [1] احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے دو یا تین راتوں میں لوگوں کو باجماعت تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کی)ایک رات آدھے حصہ میں نکلے۔ آپ نے مسجد میں نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کو لوگوں نے اس کا ایک دوسرے پر چرچا کیا۔ دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔ اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر صبح ہوئی تو اس کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا۔ تیسری رات میں اس سے زیادہ آدمی جمع ہوئے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ نے نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔جب چوتھی رات آئی تو مسجد میں لوگوں کا اس میں سمانا دشوار ہو گیا لیکن آپ صبح کی نماز کے لیے نکلے جب صبح کی نماز ادا کی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور
|