Maktaba Wahhabi

561 - 764
دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں ]۔لیکن خالق سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے۔ اس لیے کہ ہر ممکن چیز اپنے وجود کے لیے کسی ایسے موجد کی محتاج ہوتی ہے جو اپنی ذات میں بے نیاز ہواو راسے کسی دوسرے کی کوئی ضرورت نہ ہو ۔ تاکہ اس سے دور اور تسلسل لازم نہ آئے۔ جب کہ مخلوق کے ہر دو افراد میں ہر ایک فرد اپنی قوت و طاقت اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے ؛ نہ ہی وہ اپنی ذات سے قوت حاصل کرتا ہے اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی دوسرے سے؛پس اس میں کوئی دور و تسلسل والی بات نہیں ۔ تیسرا جواب:....یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ ہمیشہ سے شاگرد بعض باتوں میں اساتذہ کو آگاہ کرتے ہیں ۔ اور اساتذہ ان کی معلومات سے استفادہ کرتے ہیں ۔حالانکہ شاگرد جن اصولوں کے ذریعہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے ؛ وہ اس نے اساتذہ سے ہی حاصل کیے تھے۔ یہی حال صنعت کاروں اور دوسرے لوگوں کا بھی ہے۔ چوتھا جواب:....حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے افضل ہونے کے باوجود ان سے تین مسائل کا علم حاصل کیا۔ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا تھا: ﴿ اَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ﴾ [نمل۲۲] ’’ میں ایسی بات معلوم کرکے آیا ہوں جس کا علم آپ کو نہیں ہے ۔‘‘ اب کہاں [اللہ کے نبی ] حضرت سلیمان علیہ السلام اور کہاں میاں ہدہد [ایک پرندہ ]۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ اور بعض اوقات ان کی رائے کے مطابق رجوع کیا کرتے اور عمل بھی کیا کرتے تھے۔ جیساکہ غزوہ بدر کے موقع پر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا : یارسول اللہ ! اس جگہ پڑاؤڈالنے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ؟ تو پھر ہم یہاں سے تجاوز نہیں کرسکتے ؛ یا پھر یہاں پر پڑاؤ ڈالنا محض جنگی تدبیر اور ایک چال ہے ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ محض رائے؛ جنگی تدبیر اور ایک چال ہے ۔‘‘ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : تو پھر یہ جگہ جنگی پڑاؤ کے قابل نہیں ہے ۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کے مطابق رجوع کیا ۔ اسی طرح غزوہ خندق کے موقع پر آپ کی رائے یہ تھی کہ قبیلہ غطفان سے مدینہ کی آدھی کھجوروں کے بدلہ میں صلح کرلیں ؛ اورلڑائی سے پیچھے ہٹ جائیں ۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے تو ہم نے سن لیا [اور مان لیا] ہم اطاعت کے لیے حاضر ہیں ۔اور اگر آپ نے فقط ہماری مصلحت کی خاطر ایسا کیا ہے تو پھر وہ لوگ جاہلیت میں بھی ایک کھجور بھی خریدے یا اجرت پر لیے بغیر نہیں لے سکتے تھے ؛ اور جس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام سے عزت بخشی تو پھر کیا ہم انہیں اپنی کھجوریں دیں گے ؟ اللہ کی قسم ہم انہیں اپنی تلواروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیں گے ۔‘‘ اور اس طرح کی دیگر باتیں بھی ہوئیں ؛ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کرلیا ۔‘‘ غزوہ تبوک کے موقع پر [راستہ میں ] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کے اونٹ ذبح کرنے کو کہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیاکہ اس کے بجائے ایسا کیا جائے کہ : سب لوگوں کا توشہ جمع کیا جائے ‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں برکت کے لیے
Flag Counter