حاکم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسا حق کا پیروکار ہوگا تو عوام پر ترک ِنصیحت کے لیے کوئی عذر نہ ہوگا۔ اور اگر ظلم کو روکنا کسی بڑے فساد کے بغیر ممکن نہ ہو تو پھر اس صورت میں چھوٹی برائی کو ختم کرنے کے لیے بڑی برائی کو اختیار نہ کیا جائے۔ پس چھوٹے اور کم شر کو بڑے شر سے ختم نہ کیا جائے۔
[اشکال]:رہا شیعہ کا یہ قول کہ ’’ امام کا کام رعیت کو کمال تک پہنچانا ہے۔تو پھر امام رعایا سے طلب کمال کیسے کرسکتا ہے؟‘‘
[جواب ]:اس کے متعدد جواب ہیں :
پہلا جواب:....ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ امام کا کام رعایا کی تکمیل کرنا ہے ‘ اور رعایا اس کی تکمیل نہیں کرسکتی۔ یہ درست نہیں اس لیے کہ امام و رعیت دونوں باہم ایک دوسرے کی تکمیل کرتے اور برّ و تقویٰ میں ایک دوسرے کے معاون ہوا کرتے ہیں ۔اور گناہ اورنافرمانی کے کام میں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؛ جیسے لشکر کا سالار؛ قافلہ کا امیر ؛ نماز کاامام ؛ حج کا امیر ۔دین کی معرفت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی گئی ہے ۔ لہٰذا امام کا کوئی الگ دین نہیں ہوتا جو اس کے لیے خاص ہو ۔ البتہ جزئیات میں اجتہاد کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ لیکن جب حق بالکل واضح ہو ‘ تو پھر اسی کے مطابق کا حکم بھی کرے ۔اوراگر یہ حکم صرف امام کے لیے واضح ہو تو اسے چاہیے کہ لوگوں کے سامنے بھی اسے واضح او ربیان کرے۔اورلوگوں پر واجب ہوتاہے کہ وہ اس کی اطاعت بھی کریں ۔ اور اگر حکم مشتبہ ہو تو ان پر واجب ہوتا ہے کہ آپس میں مشاورت کریں یہاں تک کہ حق ان کے سامنے واضح ہو جائے۔اور اگر اجتہادی فیصلہ رعایا میں سے کسی ایک کا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ امام و حاکم کو بتادے ۔اور اگر سب کا اجتہاد مختلف ہو تو اس صورت میں امام کے اجتہاد کی اتباع کی جائے گی۔ کیونکہ امام کی رائے کو ترجیح دینا ضروری ہے ‘ اور اس کے برعکس کرنا ممتنع ہے ۔
یہ اسی طرح ہے جیسے روافض میں سے امامیہ کا قول امام معصوم کے نائبین کے بارے میں ہے کہ انہیں کلیات معلوم ہو چکے ہیں تو ان پر ضروری ہوتاہے کہ وہ اجتہاد کے ذریعہ جزئیات معلوم کریں ۔اور اسی طرح ہر امام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے جس کی عصمت و پاکدامنی پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔کسی اور کے نائب کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اتباع کے زیادہ حق دار ہیں ۔ او رآپ کے نائب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھائیں جو ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبھائی تھی؛ یہاں پر خلیفہ بننا مراد نہیں ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر والی پر واجب ہوتی ہے۔ خواہ اس کو والی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا ہو یا کسی اور نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ کی اطاعت اسی طرح واجب ہے جیسے آپ کی زندگی میں واجب تھی۔ پس جس کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا دیگر کسی نے والی بنایا ہو تو اس پر وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو دیگر حکام وامراء پر واجب ہوتی ہے۔
دوسرا جواب:....مخلوق کا ہر فرد اپنی تکمیل کے لیے دوسرے کا محتاج ہوتا ہے ۔ جیسے علمی بحث و مباحثہ کرنے والے ؛ باہم مشورہ کرنے والے ؛ اور دینی یا دنیاوی مصلحتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مشورہ کرنے والے [ایک
|