ہے ۔ بعض علماء کرام نے یہ لکھ دیا کہ: اس سے مراد یہ ہے کہ : یہاں تک کہ میں مسلمان ہوگیا ۔ اس طرح انہوں نے معنی بدل دیا اور بعض علماء کرام نے لکھ دیا کہ : وہ شیطان مؤمن ہوگیا ؛ تو انہیں نے لفظ کو بدل دیا ۔
ایسے ہی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو قتل کردیا تو آپ نے فرمایا:
﴿ ھٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ [القصص۱۵]
’’ یہ تو شیطانی کام ہے یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے ۔‘‘
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادم نے کہا تھا:
﴿وَ مَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ ﴾ [کہف۶۳]
’’ اور مجھے تو شیطان نے ہی بھلا دیا کہ میں اسے یاد رکھتا ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حوا رضی اللہ عنہا کے قصہ میں فرمایا ہے :
﴿فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ﴾ [البقرۃ ۳۶]
’’ شیطان نے آدم و حوا دونوں کو ور غلادیا۔ اور جس حالت میں وہ تھے انہیں وہاں سے نکلوا کر ہی دم لیا۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَاوٗرِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا ﴾ [اعراف۲۰]
’’پھر شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ان سے چھپائی گئی تھی انہیں کھول دکھائے۔‘‘
پس جب شیطان کا لاحق ہونا انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت میں عیب شمار نہیں ہوتا؛تو خلفاء کرام کی خلافت میں کیسے عیب شمار ہوسکتا ہے ؟
اور اگر کوئی انسان یہ دعوی کرے کہ مذکورہ نصوص میں تأویل کی گئی ہے [یعنی وہ اپنے ظاہر پر نہیں ]؟
تو اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ: ’’ پھر کسی دوسرے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول میں تأویل کرنا بھی درست ہے۔ اس لیے کہ آپ کے ایمان وعلم و عمل ؛ تقوی و طہارت پر بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔ اور جب کوئی ایسا مجمل لفظ وارد ہوجو کہ معلوم شدہ حقیقت کے خلاف ہو تو اس کی تاویل کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔
رہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد کہ:’’ اگر میں راہ استقامت پر قائم رہوں تو میری مدد کرنا او راگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردینا۔‘‘ آپ کے کمال عدل و انصاف اور تقویٰ کی دلیل ہے۔اورہر حاکم پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں آپ کی اقتداء کرے۔ اوررعایاپر بھی واجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے ائمہ وحکام کے ساتھ اسی کی روشنی میں سلوک کریں ۔ یعنی اگر حاکم اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم ہو تو ان کی مدد کریں ‘اور اگر ان سے کوئی غلطی ہورہی ہو او روہ راہ ِ حق سے ڈگمگارہے ہوں تو ان کی رہنمائی و اصلاح کا کام کریں ۔ اگر وہ ظلم کا ارادہ کرے تو جہاں تک ہوسکے تو اسے روکیں ۔ اگر
|