’’میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا،آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے ،تووہ شخص درشت کلامی پر اتر آیا ۔ میں نے کہا : اے خلیفہ رسول! آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں ؟ میرے ان الفاظ سے ان کا سارا غصہ جاتا رہا ، وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اورمجھے بلالیا؛ ....اورفرمایا:’’ اگر میں تمہیں اجازت دیتا تو تم یہ کر گزرتے ؟میں نے کہا: کیوں نہیں ؟ ضرور کرتا ؛آپ نے فرمایا:
’’ اللہ کی قسم یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں -یعنی محض اپنی نافرمانی کی وجہ سے کسی مسلمان کو قتل کردیا جائے ۔‘‘[1]
علماء کرام رحمہم اللہ کے اس حدیث کی شرح میں دو قول ہیں :
پہلا قول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے انسان کو گالی دینے والے کو قتل کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ’’کسی انسان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے علم و اجتہاد سے لوگوں کے خون کے فیصلے کرے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت نہ کی تو آپ نے اپنے ہاتھ سے تو درکنار ؛ اپنی زبان سے بھی انہیں تکلیف ہیں دی۔ اور دوسرے لوگ جیسے حضرت علی وغیرہ رضی اللہ عنہم نے بھی چھ ماہ تک آپ کی بیعت نہ کی تھی۔ مگر آپ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی ذرا بھر بھی تکلیف نہیں دی۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک کو اپنی بیعت پر مجبور کیا ۔ یہ سب ان کے کمال عدل اور معراج تقوی کی وجہ سے تھا۔ اور کمال احتیاط تھی کہ کہیں پر امت کو کوئی ذرا بھر بھی تکلیف نہ پہنچے۔ بلکہ یہاں تک فرمادیا کہ جب مجھے غصہ لاحق ہو تو مجھ سے دور رہا کرو ۔
پانچویں بات:....صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کے ساتھی جن[شیطان] کو مسلط کیا گیا ہے۔‘‘
صحابہ نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول! کیا آپ کے ساتھ بھی جن ہے؟ توآپ نے فرمایا:’’ ہاں ! مگر میں بتوفیق الٰہی اس سے محفوظ رہتا ہوں ، اور وہ مجھے اچھی بات ہی کا حکم دیتا ہے۔‘‘[مسلم ۲۱۶۷]
حدیث صحیح میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میرے ساتھ بھی شیطان ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں ! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھرعرض کی : کیاوہ ہر انسان کے ساتھ ہے ؟
تو آپ نے فرمایا: ہاں ! تو انہیں نے پھر عرض کی : کیاوہ آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ہاں ! مگر میرے رب نے اسے میرے لیے مسخر کردیا ہے؛ اوروہ مسلمان ہوگیا ہے۔ ‘‘[2]
علماء کرام رحمہم اللہ کے دو اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ وہ میرا مطیع و فرمانبردار ہوگیا
|