دعا کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرما لیا ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنی جوتی دیکر بھیجا کہ جو بھی اس دیوار کے پیچھے ملے اور وہ لا إلہ إلا اللّٰہ کی گواہی بھی دیتا ہو‘ تو اسے جنت کی خوشخبری سنادو ۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ پھر لوگ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے[اور عمل نہیں کریں گے] توآپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ انہیں منع کریں کہ ایسا اعلان نہ کیا جائے ‘ تو آپ نے یہ مشورہ بھی قبول فرما لیا ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر اس معاملہ میں ان کے رائے قبول نہیں کیا کرتے تھے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی منصوص حکم نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ جب ان پر حکم واضح ہوجاتا تھاتو پھر مخالفت کرنے والے کی پرواہ نہیں کیا کرتے تھے۔
کیاآپ دیکھتے نہیں کہ جب آپ نے مرتدین سے قتال کا ارادہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچنے کے خوف و اندیشہ سے ایسا کرنے سے منع کیا؛ اور ان لوگوں سے قتال کرنے سے بھی منع کیا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکواۃ کی ادائیگی روک لی تھی۔اور ایسے ہی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو روانہ کرنے سے بھی منع کیا تھا؛ مگر آپ نے کوئی بات نہیں مانی؛ اور دلائل سے اپنے فعل کو درست ثابت کیا۔
جزئی امور میں جن کا منصوص ہونا ضروری نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس سے محض علت یا مصلحت مراد ہوتی ہے ؛ تو ان میں وہ بہر حال انبیاء کرام علیہم السلام کے درجہ سے بلند نہیں ہوسکتے۔
پانچویں بات: ....حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس کلام نے امت کی نظروں میں آپ کی عزت اور مقام و مرتبہ کو بڑھایا ہے اور امت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسی تعظیم کسی کی بھی نہیں کی ۔ اور نہ ہی کسی کی اس طرح اطاعت کی جس طرح آپ کی اطاعت کی۔ اس میں انہیں نہ ہی کسی چیز میں کوئی رغبت تھی اورنہ ہی کسی بات کا کوئی خوف تھا۔ بلکہ جن لوگوں نے بیعت رضوان کے موقع پر درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی ؛ انہوں نے خوشی خوشی بیعت کی تھی۔ وہ آپ کی فضیلت اوراستحقاق کا اقرار کرتے تھے۔پھر یہ کہ ہمیں کسی ایک بھی ایسے مسئلہ کا علم نہیں ہوسکا کہ آپ کے عہد میں لوگوں کے مابین اس مسئلہ میں اختلاف ہوا ہو اور آپ کی وضاحت اور بیان سے ؛ آپ کی طرف رجوع کرنے سے وہ مسئلہ حل نہ ہوا ہو۔ اس معاملہ میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ہے؛ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس میں آپ کے قریب تر تھے ؛ اور ان کے بعدحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نمبر آتا ہے۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی ؛ نہ تو رعایا نے ان کو تقویت پہنچائی اور نہ ہی آپ رعایا کی اصلاح کرسکے۔ [اب انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے کہ ] ان دونوں میں سے کس حاکم کے ذریعہ مقصود امامت و حاکمیت حاصل ہوا؟ اور دونوں میں سے کس نے دین کو زیادہ قائم کیا؛مرتدوں کی راہ میں بندباندھا؛کفار سے قتال کیا ؛ اورتمام اہل ایمان لوگ بھی آپ کے عہد مسعود میں متفق اور یکجا ہی رہے ۔اب ان دونوں
|