خواہشات کے مطابق نقل کررہے ہوں ۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت میں اتباع ہوی سے کام لیتے ہیں ۔تو پھر آپ کے بارے میں نص نقل کرنے میں کیسے ان لوگوں کی تصدیق کی جاسکتی ہے؟جب کہ تمام اہل علم وعقل جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے فرق شیعہ سے بڑھ کرعمداً جھوٹ بولنے اور حق بات کو جھٹلانے والا کوئی دوسرا فرقہ نہیں ۔جب باقی فرقوں کا معاملہ ان کے برعکس ہے۔خوارج اگرچہ دین سے نکل چکے ہیں ؛ مگروہ عمداً جھوٹ نہیں بولتے۔معتزلہ سچائی کو دین سمجھتے ہیں ۔لیکن شیعہ پر ان کے ظہور کے وقت سے ہی جھوٹ غالب ہے۔
آٹھواں جواب :....کہا گیا ہے کہ شیعہ امامیہ نے پہلی مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے اثبات میں بالنص کا دعویٰ خلافت راشدہ کے آخری دَور میں کیا۔ عبد ﷲ بن سباء [1]اور اس کے ہم نواء کذابین کے ایک گروہ نے اس عقیدہ کا اختراع کیا تھا۔ اس بارے میں ہم حتمی طور پر جانتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے اس دعوی اوران لوگوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔تو پھر تواتر کا دعوی کہاں سے آگیا ؟ [اوراس کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے ]۔
نوواں جواب:....وہ احادیث مبارکہ جوحضرات ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں ؛ وہ عوام و خواص میں زیادہ اور اعظم تواتر کیساتھ پائی جاتی ہیں ۔اگر یہ بات جائز ہے کہ ان فضائل کے نقل کرنے کی وجہ سے جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کی جائے؛ توپھر شیعہ کے اس تواتر پر تنقید کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔اور اگر اس تواتر پر تنقید ممکن نہیں ہے تو پھر پہلے قسم کی روایات پربدرجہ اولی ممکن نہیں ۔جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ان نصوص کثیرہ متواترہ کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں ؛ تو پھر ان لوگوں کا اس نص کی مخالفت پر اجتماع و اتفاق محال ہے۔ اس لیے کہ اگر مخالفت کوسچ تسلیم کرلیا جائے تو یہ سب سے بڑا گناہ اور اللہ کی نافرمانی وسرکشی ہوگی۔
دسواں جواب:....شیعہ امامیہ میں سے کوئی ایک بھی متصل سند کیساتھ اس روایت کو ثابت نہیں کرسکتا‘ اسکے تواتر کا دعوی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔یہ الفاظ تکرار کے محتاج ہیں ۔جب ان الفاظ کے نقل کرنے والوں نے انہیں پڑھا سنا نہیں ہوگا تو وہ انہیں یاد بھی نہیں رکھ سکیں گے۔ حالانکہ اس وقت میں قوی حافظہ والے لوگ موجود تھے جنہوں نے قرآن یاد کیا؛ [احادیث حفظ کیں ] تشہد اور اذان کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسل در نسل نقل کرتے چلے آرہے ہیں ۔[تو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشادفرمائے ہوتے جیسا کہ شیعہ کا دعوی ہے توصحابہ کرام اورتابعین انہیں ضرور نقل کرتے ؛ان کا اس روایت کو نقل نہ کرنا اس کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے کی ایک نشانی ہے]۔
|