Maktaba Wahhabi

543 - 764
ایسے ہی ہے جیسے علماء اہل سنت اس روایت کے جھوٹ ہونے کادعوی کرتے ہیں ۔ پانچواں جواب:....تواتر کی شرط یہ ہے کہ کسی روایت کے ناقلین کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ طرفین اور وسط کے لوگوں کو یقینی علم حاصل ہو جائے۔ حسن عسکری کی موت سے پہلے کوئی بھی شخص امام منتظر کا قائل نہ تھا۔اور نہ ہی حضرت علی اوربنو امیہ کے دور میں کسی ایسے انسان کے بارے میں علم ہوسکاہے جس نے بارہ ائمہ اور امام غائب کے عقیدہ کا اعلان یا دعوی کیا ہو۔ اس وقت تو دعوی کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منصوص ہونے کا دعوی کرتے تھے ۔ [البتہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بعد میں آنے والے ائمہ کی امامت کے دعوے دار تھے]۔ بارہ اماموں کی امامت کا دعویٰ جن کا آخری امام ہنوز معدوم ہے؛ متقدمین میں سے کسی نے نہیں کہا تھا اور نہ کسی ناقل نے اسے نقل کیا۔[ پھر تواتر کا دعویٰ کس حد تک صحیح ہے؟ ]۔ چھٹا جواب:....اصل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی ایک بھی رافضی نہیں تھا۔اگرچہ بعض دعوی کرنے والوں نے چند ایک صحابہ کے بارے میں ایسا دعوی کیا بھی ہے ‘لیکن یہ صحابہ کرام پر محض جھوٹ ہے ۔ اس صورت حال میں تو کوئی تواتر ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اگر ایک تھوڑی سی تعداد ایک مذہب پر متفق ہو بھی جائے تو ان کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن ہوتا ہے ‘ [اس لیے تواتر ثابت نہیں ہوسکتا]۔ رافضہ جب جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہیں تو پھر اس روایت کے ناقلین پر قلت تعداد کے باوجود جھوٹ کو کیسے جائز نہیں سمجھ سکتے ؟ اگران میں سے کسی ایک نقل بھی کیاہو تو ۔پھر اگر صحابہ کرام کے دور میں اتنی تعداد نہیں پائی جاتی جس سے تواتر ثابت ہوسکے تو پھر یہ دعوی شروع سے ہی اپنی جڑوں سے ہی کٹ گیا۔ ساتواں جواب:....روافض کا دعوی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں چند ایک کے علاوہ جن کی تعداد دس تک بڑی مشکل سے پہنچتی ہے یا اس سے بھی کم رہتی ہے؛ باقی سارے لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ یہ ثابت علی الاسلام رہنے والے صحابہ : سلیمان ‘عمار؛ ابو ذراورمقداد تھے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ باقی جمہور صحابہ کرام نے تو یہ نص نقل نہیں کی ۔ شیعہ کے نزدیک ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ نص چھپالی تھی۔ تو پھر شیعہ کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس نص کی روایت کو ان صحابہ کرام کی طرف منسوب کریں ۔جب کہ دوسرے لوگوں کے بارے میں شیعہ کا خیال ہے کہ ان سب کا موالات علی پر اجماع تھا۔ پس اس صورت میں وہ چھوٹی جماعت جن کا ایک بات پر جمع ہونا ممکن ہو ‘ ان کے نقل کرنے سے تواتر حاصل نہیں ہوسکتا۔کیونکہ ان کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن اورجائز ہوتاہے۔ جب رافضی جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر-ان کی کثرت کے باوجود- جھوٹ بولنے کو جائز سمجھتے ہیں ‘اور انہیں اسلام سے مرتد قراردیتے ہیں ۔اور ایسی باتیں چھپانے کا الزام لگاتے ہیں جن کاعادت کے مطابق چھپایاجانا ممکن نہیں ؛ تو پھر ایک چھوٹے سے گروہ پر جھوٹا ہونے کا الزام زیادہ آسان اوراولیٰ ہے۔ جب یہ لوگ اپنی خواہشات کے خلاف کوئی چیز نقل کرتے ہیں تو پھر کھل کر صحابہ کرام کو جھوٹے کہتے ہیں ۔توپھر ایسے مسئلہ ان کی تصدیق کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟ [جب کہ وہ صحابہ کو سچے نہیں مانتے]۔جب روایت کے نقل کرنے والے ہی اپنی
Flag Counter