لوگوں کا ہوگا جو بدعت کے ظہور و انتشار کے وقت سنت کو اپنے گلے سے لگائیں گے۔ مثلا جوانسان خلفا ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی محبت کو اس وقت گلے سے لگالے جس وقت اس کے خلاف ہورہا ہو۔ یا اس طرح کی دیگر کوئی بات ہورہی ہو۔
پھریہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اوردین اسلام پر اس کی رحمت ہے کہ جب حکومت بنی ہاشم سے منتقل ہوئی تو بنو عباس میں چلی گئی ۔ اس لیے کہ سب سے پہلے جب بنو ہاشم[بنی عباس] کی حکومت بنی تو ان کا نعرہ تھا: رضائے آل محمد ۔ اس حکومت کے شیعہ بنو ہاشم سے محبت کرنے والے تھے۔ اور بنی ہاشم میں سے جو خلیفہ بنا وہ خلفا راشدین اور سابقین اولین مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کی قدر جانتا تھا۔ اس لیے ان کے دور حکومت میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی تعظیم وتکریم ہی ہوتی رہی۔ اورمنابر پر ان کا ذکر خیر اور ثنائے جمیل ہوتی رہی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم کے ترانے بجنے لگے۔ وگرنہ اگر کوئی رافضی منصب ولایت پر پہنچ جاتا تو-العیاذ باللہ -تووہ خلفا راشدین اور سابقین اولین رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتا اور سارے اسلام کو الٹ کر رکھ دیتا۔
لیکن اس حکومت میں وہ خود غرض بھی کسی طرح داخل ہوگئے جن کا باطن اچھا نہیں ۔اور انہیں ہٹانا بھی ممکن نہیں تھا جیسا کہ حضرت علی کے لیے اپنے لشکر کے بڑے بڑے امرا کو معزول کرنا ممکن نہ رہا تھا۔جیسا کہ اشعث بن قیس اشتر نخعی اورہاشم مرقال اور ان کے امثال و ہمنوا۔
ایسے ہی وہ مجوسی اہل بدعت اور زندیق بھی ان کی صفوں میں داخل ہوگئے جن کے دل میں اسلام کے خلاف بغض و حسد تھا۔ مہدی نے ان کو تلاش کرکے او رچن چن کر قتل کیا۔یہاں تک کہ بہت بڑے شرسے حفاظت اور دفاع ممکن ہوگیا۔ یہ مہدی بنو عباس کے بہترین خلفا میں سے ایک تھا۔ایسے ہی رشید کا معاملہ بھی تھا۔ اس میں علم و جہاد اور دین کی وتعظیم کا عنصر بدرجہ اتم موجود تھا یہی وجہ ہے کہ اس کے دور حکومت کو بنو عباس کا سنہری دور کہا جاسکتاہے۔ بالفاظ دیگر بنو عباس کی سعادت کا سورج اس وقت اپنی اوج تمام پر تھا۔ اس کے بعد بنو عباس کی شیرازہ بندی اس طرح سے ممکن نہیں رہی۔حالانکہ بنی عباس میں سے ایک بھی اندلس پر حکمران نہیں بنا۔نہ ہی مغرب کے اکثر علاقے ان کے زیر نگیں آئے۔ان میں سے بعض امرا کچھ عرصہ کے لیے افریقہ کے بعض علاقوں پر قابض ہوئے تھے پھر ان سے یہ علاقے چھین لیے گئے۔بخلاف بنو امیہ کے ۔ وہ تمام اسلامی مملکت کے حکمران تھے۔ اور انہوں نے دشمنان دین کو مغلوب کر رکھا تھا۔ ان کے کئی لشکر تھے۔ ایک لشکر اگر اندلس فتح کررہا تھا تو دوسرا لشکر بلاد ترک میں القان سے برسر پیکار تھا۔ تیسرالشکر بلاد عبید پر حملہ آور تھا تو چوتھا لشکر ارض روم میں جہاد کررہا تھا۔ اسلام کو روزر بروز قوت مل رہی تھی اسلام زمین میں پھیل رہا تھا۔ اور تمام روئے ارض پر غالب و سر بلند تھا۔ یہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فرمان کی تصدیق تھی جس میں آپ نے فرمایا تھا:
’’لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفاء ان کے حاکم رہیں گے۔‘‘
|