حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شیعان میں جو شر و فساد پایاجاتا ہے وہ اس شر و فساد سے کئی گنا بڑھ کر ہے جو شیعان عثمان میں پایا جاتا ہے۔ اور جو خیر و صلاح شیعان عثمان رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی ہے وہ شیعان علی میں پائی جانے والی خیر و صلاح سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ بنو امیہ سبھی شیعان عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔بعد والوں کی نسبت ان کے زمانے میں شرائع اسلام غالب اور ظاہر تھیں ۔ صحیحین میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لا یزال ہذا الأمر عزِیزاً ِإلی اثنی عشر خلِیفۃ کلہم مِن قریش )) [سبق تخریجہ]
’’لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفا ان کے حاکم رہیں گے۔‘‘
یعنی دین اس وقت تک غالب رہیگا جب تک ان میں بارہ امام ہو گزریں ۔
بخاری کے الفاظ ہیں : اثنی عشر أمِیراً۔‘‘’’بارہ امیر۔‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :’’ لا یزال أمر الناسِ ماضِیا ولہم اثنا عشر رجلا ۔‘‘’’لوگ اس وقت تک خوشحال رہیں گے جب تک ان میں بارہ افراد ہوگزریں ۔‘‘
ایک روایت میں ہے: ’’لا یزال الِإسلام عزِیزا ِإلی اثنی عشر خلِیفۃ کلہم مِن قریش۔‘‘
’’اسلام کا معاملہ اس وقت تک غالب و سر بلند رہے گا جب تک بارہ خلیفہ ہوگزریں یہ سب قریش میں سے ہوں گے ۔‘‘ [سبق تخریجہ]
حقیقت میں ایسے ہی ہوا۔ حضرات خلفاء: ابوبکر و عمر وعثمان و علی رضی اللہ عنہم ۔ اور پھر ولایت اسے ملی جس پر لوگوں کا اتفاق ہوگا اور دین اسلام کو غلبہ اور حفاظت نصیب ہوئی۔یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پھر ان کا بیٹا یزید پھر عبدالملک بن مروان پھر اس کے چاروں بیٹے پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ۔ پھر اس کے بعد دولت اسلامیہ میں نقص آنا شروع ہوا جو کہ آج تک باقی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنو امیہ تمام ارض اسلام کے والی تھے۔ اور ان کے زمانے میں ملک کو استحکام حاصل تھا۔ اورخلیفہ کو اس کے نام سے پکارا جاتا تھا جیسے عبد الملک اور سلیمان۔ لوگ اس وقت میں عضد الدولہ اور عزالدین اور بہاء الدین اور فلان الدین کے القاب کو نہیں پہچانتے تھے۔خلیفہ لوگوں کو پانچ وقت کی نمازپڑھاتا تھا۔مسجد میں بیٹھ کر اسلامی لشکر تیار ہوتا اور امراء مقرر کیے جاتے۔ اورخلیفہ اپنے گھر میں رہتا تھا قلعوں میں نہیں ؛اور نہ ہی لوگوں کو ان تک رسائی سے روکا جاتا تھا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ وہ لوگ اسلام کے شروع میں قرون مفضلہ کے لوگ تھے جو کہ صحابہ کرام تابعین عظام اور تبع تابعین کا دور تھا۔ بنو امیہ پر لوگوں کے جو دو سب سے بڑے الزامات تھے وہ یہی تھے :ایک حضرت علی پر سب وشتم ۔ اور دوسرا نماز میں وقت سے تاخیر۔ حضرت عمر بن مرہ جملی رحمہ اللہ کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا۔ آپ سے پوچھا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ توآپ نے فرمایا: نماز کے وقت کی حفاظت اورحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت کردی۔ یہ اس انسان کا حال ہے جس نے اختلاف کے ظہور کے وقت ان دو سنتوں کی حفاظت کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی۔ اور یہی حال ان تمام
|