Maktaba Wahhabi

533 - 764
ان جنگوں میں شریک نہیں ہوا وہ ان لوگوں سے افضل تھا جو ان میں شریک ہوئے۔ یہ امام مالک احمد ابو حنیفہ اوزاعی ثوری رحمہم اللہ اور دیگر اتنے ائمہ و علماء کا مذہب ہے جن کی تعداد کا شمار کرنا ممکن نہیں ۔حالانکہ امام ابو حنیفہ اور دیگر کوفی فقہاء کے نزدیک امام قدوری ک رحمہ اللہ اوردیگر علماء کی نقل کے مطابق باغیوں سے جنگ کرنا جائز نہیں ۔ہاں اگر وہ خود امام کے خلاف برسر پیکار جنگ ہوجائیں تو پھر ان سے جنگ و قتال کرنا جائز ہے۔اور اگر وہ واجب زکواۃ ادا کررہے ہوں ۔ مگر اسے حاکم وقت کے ہاتھوں میں دینے سے انکار کردیں تو پھر ان سے جنگ جائز نہیں ۔ ایسے ہی امام احمد اور دیگر ائمہ اور جمہور ائمہ وفقہا کا مذہب یہ ہے کہ قرآن میں مذکور ذوی القربی سے مراد رسول اللہ کے قریبی رشتہ دار مراد ہیں ۔ اور امام کو وہ مقام یا رخصت حاصل نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی۔یہاں پرمقصود یہ ہے کہ یہ دونوں خلفاء اگرچہ اپنے افعال میں متأول اورمجتہد تھے اور ان علماء کرام کی ایک جماعت نے ان کی موافقت بھی کی ہے جو صرف علم اوردلیل کی روشنی میں بات کرتے ہیں ؛ اور ان دونوں کا کوئی کام ایسا بھی نہیں جس کی وجہ سے ان پر کوئی تہمت آتی ہو۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اجتہاد مصلحت کے زیادہ قریب اور فساد سے بہت دور تھا۔ اس لیے کہ خون کا خطرہ اور فتنہ مال کے خطرہ اور فتنہ سے بہت بڑھ کر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت بڑی پرامن اور پرسکون تھی۔ تمام امت اس وقت آپس میں متفق ومتحد تھی۔چھ سال تک لوگوں کو آپ کا کوئی برا نہیں لگا اور نہ ہی کسی چیزپر انکار کیا گیا۔ پھر باقی کے چھ سالوں میں کچھ ایسی چیزیں دیکھنے میں آئیں جن پر انکار کیا گیا۔ یہ ان چیزوں سے بہت کم تھی جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے وقت موجود تھیں ۔جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا وہ اوباش اور بے راہ رو نوجوانوں کا ایک گروہ تھا۔جب کہ بہت سارے سابقین اولین نے نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کی اور نہ ہی آپ کی بیعت کی۔ بلکہ بہت سارے صحابہ او رتابعین نے آپ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ ایسے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شہروں کے شہر فتح ہوئے کفار کو قتل کیا گیا۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں نہ ہی کوئی نیا شہر فتح ہوا اور نہ ہی کسی کافر کو قتل کیا گیا۔ یہ جوکچھ بھی ہوا اگریہ سارا رائے کا نتیجہ ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے زیادہ کامل و اکمل ہے۔ اور اگر یہ قصد و ارادہ کی وجہ سے ہے تو آپ کا قصدو ارادہ زیادہ مکمل و اتم تھا۔ نیز یہ بھی کہتے ہیں اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی کی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا: (( لو کان عِندنا ثالِث لزوجناہا عثمان)) [سبق تخریجہ] ’’ اگر ہمارے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو ہم اس کی شادی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہی کردیتے ۔‘‘ اسی وجہ سے آپ کا نام ذوالنورین رکھا گیا۔ اس لیے کہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نبی کی دو بیٹیوں سے شادی کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔
Flag Counter