کی وجہ سے بیعت رضوان کی ؛یہ اس وقت ہوا جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ مشرکین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے۔ اورآپ نے اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیکر ان کی طرف سے بیعت کی ۔یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کی طرف سے بیعت کی۔
جب کہ منصب و مال میں آپ کے زہد و ورع میں کوئی شک نہیں ۔ آپ نے بارہ سال تک حکومت کی۔ پھر خوارج کا ظہور ہوا جوکہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے آپ کا محاصرہ کرلیا حالانکہ آپ اس وقت رئے زمین پر خلیفہ تھے اور تمام مسلمان آپ کی رعیت تھے۔ مگر اس کے باوجود آپ نے کسی ایک مسلمان کو بھی قتل نہیں کیا اور نہ ہی اپنے نفس کے دفاع میں جنگ کی۔ بلکہ آپ صابر و ثابت رہے یہاں تک کہ آپ کو قتل کردیا گیا۔
مگر مال کے بارے یہ ضرور ہے کہ آپ اپنے اقارب کو دوسروں سے زیادہ دیا کرتے تھے۔ اور آپ کے پاس مال کی فراوانی تھی۔ آپ نے جو کچھ کیا وہ تأویل کی بنا پر اپنے اجتہاد سے کیا ۔ اس اجتہاد پر فقہاء کی ایک جماعت آپ کے موافق ہے۔ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے مال خمس اور فئے کا حصہ رکھا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی جگہ بننے والے خلیفہ کا حق ہے۔یہ ابی ثور اور دوسرے فقہا کا قول ہے۔ اوربعض کہتے ہیں : قرآن میں قرابت داروں کا جو حق مذکور ہے اس سے مراد امام(یعنی حاکم وقت)کے قرابت دار ہیں ۔اور بعض کہتے ہیں : امام صدقات پر عامل ہوتا ہے۔ وہ اپنے مال دار ہونے کے باوجود اس میں سے لے سکتا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے یہ دلائل اور تأویلات تھیں جو کہ آپ سے منقول بھی ہیں ۔ پس آپ نے جو کچھ کیا وہ بھی تویل کی ہی ایک قسم ہے جسے فقہا کرام کی ایک جماعت جائز قرار دیتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب میں سے کسی ایک کو بھی عطا کے ساتھ خاص نہیں کیا۔بلکہ آپ نے شروع ہی میں ان لوگوں سے جنگ شروع کردی جنہوں نے آپ سے جنگ شروع نہیں کی تھی۔یہاں تک ان معرکوں میں ہزاروں مسلمانوں قتل کردیے گئے۔ اگرچہ آپ بھی اپنے اس فعل میں متول تھے اور آپ کی اس تاویل پر فقہا کرام کی ایک جماعت نے موافقت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ باغی تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے باغیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ارشاد الٰہی ہے:
﴿فقاتِلوا التِی تبغِی﴾ [الحجراتِ۹] ’’ جو گروہ زیادتی کرے اس سے جنگ کرو۔‘‘
لیکن اکثر علماء کرام رحمہم اللہ نے اس میں اختلاف کیا ہے ۔ جیسا کہ بہت سارے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی اختلاف رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ﴾ [حجراتِ۹]
’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کروپھر اگر ان دونوں میں
|