ٹھہریں گے۔ اور یہ بات(عقلاً و شرعاً)ممتنع ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حق کا عالم اور عادل نہ ہونا بہت بڑی نازیبا بات ہے؛اس سے ان کی عدالت پر قدح وارد ہوتی ہے۔ اور اس سے یہ بات ضرورت کے تحت ممتنع ہوتی ہے کہ وہ لوگ خیر القرون سے تعلق رکھتے ہوں ۔ اس لیے کہ قرآن نے ان لوگوں کی ایسے الفاظ میں توصیف و ثنا بیان کی ہے جو مدح و تعریف کی انتہا ہے۔ تو پھر اس صورت میں یہ بات محال ہے کہ ان لوگوں کا کسی ایسے ظلم پر اجماع اور اصرار ہو جس کا ضرر پوری امت کو پہنچے۔ اس لیے کہ یہ ظلم صرف ولایت سے روکنے کی حد تک ہی نہیں رہتا بلکہ یہ ہر اس انسان پر ظلم ہوگا جس ولایت کے حقدار کو ولایت تفویض کرنے سے فائدہ پہنچتا۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ دو چرواہے ہوں ان میں سے ایک نگہبانی اور گلہ بانی کے لیے زیادہ مناسب ہواور وہ اس کا حق دار بھی ہو تو اس کو گلہ بانی سے روکنے کا ریوڑ کے حق منفعت میں کمی کرنا ہے۔
اس لیے بھی کہ قرآن و سنت کے دلائل سے ثابت ہے کہ امت تمام امتوں سے بہتر ہے۔اگر یہ لوگ اپنے اسی عقیدہ پر مصر رہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ امت ساری امتوں سے بری ہو۔ اور امت کے پہلے لوگوں میں بھی کوئی خیر نہ پائی جاتی ہو۔ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ متأخرین صحابہ کرام جیسے نہیں ہوسکتے۔ اگروہ لوگ ظالم اور ظلم پر اصرار کرنے والے تھے تو پھر ساری امت ظالم ٹھہری اور یہ امت خیر الامم بھی نہیں ہوسکتی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کوفہ تشریف لے گئے تو ان سے پوچھاگیا:آپ نے کس کو والی بنایا؟ توآپ نے فرمایا: ’’ہم نے اپنے میں سے سب سے اعلی مرتبہ انسان کو ولایت تفویض کی ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں کی۔‘‘ یہاں پر اعلی مرتبہ سے مراد اسلام اوردین میں اعلی مرتبہ ہے۔
اگر یہ بات کہی جائے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ امامت کا حق دار کوئی دوسرا ہو مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سے افضل ہوں ۔
تو اس کا جواب یہ ہے: پھلی بات: یہ سوال کسی امامیہ کی طرف سے وارد کیا جانا ممکن نہیں ۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک جو سب سے افضل ہوگا وہی امامت کا حق دار بھی ہوگا۔اور یہی قول جمہور اہل سنت والجماعت کا بھی ہے۔
یہاں پر دو اہم نکات ہیں : یا تو یہ بات کہی جائے کہ افضل امامت کا زیادہ حق دار ہوتا ہے مگر مفضول کو مطلق طور پر یا کسی ضرورت کے تحت یہ منصب تفویض کرناجائز ہے۔ یا پھر یہ بات کہی جائے کہ جوکوئی بھی اللہ کے ہاں افضل ہو وہ امامت کا بھی زیادہ حق دار ہوگا۔
یہاں پر دونوں باتیں منتفی ہیں ۔ اس لیے کہ مفضول فی الاستحقاق کو ولایت تفویض کرنے کی حاجت منتفی تھی۔ اس لیے کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولایت تفویض کرنے پر قادر تھے۔ اوروہاں کوئی ایسا بھی نہیں تھا جو اس مسئلہ میں تنازع کرتا۔نہ ہی ان لوگوں کو لالچ دینے یا ڈرانے دھمکانے کی ضرورت تھی۔ اورنہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس اتنی قوت و شوکت تھی جس کا خوف ہوتا۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی ایسے ہی آسانی سے خلیفہ بنایا جاسکتا تھا جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا۔ تو یہ بات ممتنع ثابت ہوگئی کہ یہ کہاجائے کہ مفضول کے علاوہ کسی کو خلیفہ بنائے جانے کا امکان ہی نہیں تھا۔جب
|