Maktaba Wahhabi

527 - 764
عثمان رضی اللہ عنہ کو ترجیح و افضلیت نہ دے۔ کیا ایسے انسان کو بدعتی شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی دو روایتیں ہیں ۔ اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تقدیم پر ایسے دلیل مل جائے جیسے ان کے علاوہ دوسری خلفا ء کی دلیل ہے تو اس سے مسئلہ زیادہ متأکد ہوجاتا ہے۔ جب کہ توقیفی طریقہ نص اور اجماع کا ہے۔ ٭ ....نص: رہا نص کا مسئلہ؛ تو صحیحین میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( کنا نقول ورسول اللّٰہِ صلی اللہ علیہِ وسلم حيٌّ: أفضل أمۃِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم بعدہ أبو بکر، ثم عمر، ثم عثمان )) [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں ہم کہا کرتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین انسان ابوبکر ہیں ان کے بعد عمر او ران کے بعد عثمان ۔‘‘ ٭....اجماع: اجماع کے بارے میں صحیح روایات میں ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھ افراد کی شوری بنائی تھی۔ ان میں سے تین افراد نے تین کے حق میں تنازل کرلیا تھا۔ اور اس بات پر اتفاق ہوگیا تھا کہ اب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان دو میں سے کسی ایک کو خلیفہ چنیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تین دن اورتین رات تک مسلمانوں سے اس مسئلہ مشورہ کرتے رہے اور جاگتے رہے آپ قسم اٹھاکر کہتے تھے کہ وہ تین دن سے نہیں سوئے۔ سو اہل مدینہ کے اہل حل و عقد حتی کہ امراء انصار جمع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد بغیر کسی خوف اور بغیر کسی لالچ کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ان تمام کا اتفاق ہوگیا۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ ہی زیادہ حق دار تھے۔ اورجو زیادہ حقدارہو وہی افضل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تمام خلق سے افضل ہی اس بات کا حق دار ہوسکتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی جگہ پر کھڑا ہو۔ جب ہم کہتے ہیں کہ :اس سے لازم آتا ہے کہ آپ ہی سب سے زیادہ حق دار تھے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے لازم آتا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تو جاہل تھے یا پھر ظالم تھے۔ اس لیے کہ جب آپ اس مقام کے حق دار نہیں تھے کوئی دوسرا حق دار تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کو اس کا پتہ نہیں چلا تو وہ جاہل شمار ہوئے اور اگر پتہ چلا ہے اور انہوں نے حق دار آدمی کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کیا ہے تووہ ظالم ٹھہرے۔ تو اس سے واضح ہوگیا کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حق دار نہ تھے ( اور پھر بھی آپ کو خلیفہ چنا گیا)؛تو صحابہ کرام کی جہالت یا ظلم لازم آتا ہے۔ اور یہ دونوں باتیں متنفی ہیں ۔ اس لیے کہ وہ لوگ ہم سے بڑھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے احوال سے واقف تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ان دونوں حضرات کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے اس کے بارے میں بھی ہم سے بڑھ کرعلم رکھتے تھے اور ہم سے بڑھ کر قرآن کے مدلولات کے عالم تھے۔ کیونکہ یہ حضرات خیر القرون کے لوگ تھے۔ یہ بات ممتنع ہے کہ ایسے مسائل میں ہم ان لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہوں ۔ اس لیے کہ ہم لوگوں سے بڑھ کر انہیں ان باتوں کے علم کی ضرورت تھی۔ اس لیے کہ اگروہ لوگ اپنے دین کے اصولی مسائل سے جاہل ہوں اور ہم جانتے ہوں تو ہم ان سے افضل
Flag Counter