کام کرپاتا ہے اس کے لیے کامل اجر ہوتاہے۔ جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایاہے:
’’ بیشک مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم کوئی بھی منزل طے نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی وادی پار کرتے ہو ‘مگر وہ اجر وثواب میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! مدینہ میں رہ کر بھی ؟ آپ نے فرمایا: ہاں مدینہ میں رہ کر بھی ‘ اس لیے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔‘‘[1]
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( من دعا إِلی ہدًی کان لہ مِن الأجرِ مِثل أجورِ منِ اتبعہ، مِن غیرِ أن ینقص مِن أجورِہِم شیئا، ومن دعا إِلی ضلالۃ کان علیہِ مِن الوِزرِ مِثل أوزارِ منِ اتبعہ، مِن غیرِ أن ینقص مِن أوزارِہِم شیئا۔))[2]
’’جو کوئی انسان ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو اس کے لیے اس کے تمام ماننے والوں کے اجر کے برابر اجر ہوتا ہے اور ان میں سے کسی کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جاتی۔ او رجو کوئی گمراہی کی طرف بلاتا ہے ‘ اس اتنا ہی بوجھ ہوتا جتنا اس کے تمام ماننے والوں کا بوجھ ہوتا ہے ۔ ان کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔‘‘
یہ بات کئی دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اصلاً کسی ایک انسان کی بھی ثناء اس کے نسب کی بنیاد پر نہیں کی۔ نہ ہی نبی کی اولاد ہونے کی بنیاد پر اور نہ ہی نبی کا باپ ہونے کی بنیاد پر۔بلکہ لوگوں کی تعریف ا ن کے اعمال اور ایمان کی بنیاد پر کی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی صنف کا ذکر کرکے ان کی تعریف کرتے ہیں تو یہ ان کے ایمان اور عمل کی وجہ سے ہوتا ہے محض نسب کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اٹھارہ انبیاء کرام کاذکر کیاتو فرمایا:
﴿وَ مِنْ اٰبَآئِہِمْ وَ ذُرِّیّٰتِہِمْ وَ اِخْوَانِہِمْ وَ اجْتَبَبْنٰہُمْ وَ ہَدَیْنٰہُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾
’’اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد وں اور ان کے بھائیوں میں سے بعض اوروں کو بھی ہم نے انھیں چنا اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔‘‘[الانعام۸۷]
یہ فضیلت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے چن لینے اور اختیار کرلینے کی وجہ سے؛ اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے کی وجہ سے حاصل ہوئی؛ محض قرابت اور نسب کی وجہ حاصل نہیں ہوئی۔
اتنی بات ضرور ہے کہ قرابت کی وجہ سے بعض حقوق واجب ہوجاتے ہیں ؛ اور نسب بھی حقوق کو واجب کرتا ہے اور
|