Maktaba Wahhabi

519 - 764
باعزت نسب والے وہ لوگ ہیں جو کسی انبیاء کے نسب سے تعلق رکھتے ہوں ۔تاہم نسب کے اعتبار سے حضرت یوسف علیہ السلام بنی آدم میں عدیم النظیر تھے۔اس لیے کہ آپ خود اللہ کے نبی ‘ اللہ کے نبی بیٹے اورنبی کے پوتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب پھر اشارہ کیا کہ ان کا مقصود ان کی اپنی ذات سے متعلق ہے تو آپ نے فرمایا: کیا تم مجھ سے عرب قبائل کے بارے میں سوال کرتے ہو؟بیشک لوگ بھی ایسے کانیں ہیں جیسے سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔اور جو ان میں سے جاہلیت میں بہتر ہو وہ اسلام میں بھی بہتر ہوتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ دین اسلام کی سمجھ حاصل کرے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس زمین سے سونا نکلتا ہے وہ اس زمین سے افضل ہوتی ہے جس سے چاندی نکلتا ہے۔ پس ایسے ہی حال ان لوگوں کا حال ہے جن کے ہاں فضلاء جنم لیتے ہوں ۔ پس اس کی اولاد ان لوگوں سے افضل ہوگی جو کہ صرف ادنی [مفضول]قسم کے لوگوں کو جنم دیتے ہیں ۔لیکن یہ ایک سبب اور خیال و تصور ہے؛ کوئی لازمی بات نہیں ہے۔ ایس بھی ہو سکتا ہے کہ زمین سونا اگلنا کم کردے ‘یا بند کردے۔تو اس صورت میں وہ زمین جو چاندی دیتی ہے وہ انسان کے نزدیک اس زمین سے افضل و محبوب ہوگی جو بنجر و ویران ہوگئی ہو۔پس بہت زیادہ چاندی جو تھوڑے سے سونا کی قیمت سے زیادہ ہو وہ انسان کو زیادہ محبوب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے نسب والوں سے خیر کی امید کی جاتی رہی ہے۔ اور اس بنا پر ان کی عزت و توقیر کی جاتی ہے۔ اوراگر کسی سے اس کے خلاف ثابت ہوجائے تو اس صورت میں حقیقت کو خیال پر مقدم رکھاجائے گا۔اور جوکچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ خالی وہم وگمان سے یا محض دلائل کی بنیاد پر ثابت نہیں ہوتا؛اس کی ثبوت ان اعمال صالحہ کی بنیاد پر ہوتا ہے جن کا اسے علم ہے۔ اس کے لیے نہ ہی کسی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ایسی جگہوں پر گمان کفایت کرسکتا ہے۔ پس اس وجہ سے[اللہ کے ہاں ] سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے بڑا متقی ہو۔اگر دو شخص تقوی میں برابر ہوں تو انہیں درجہ میں برابرکیا جائے گا۔اور اگر ان میں سے ایک کا والد یا بیٹا دوسرے کے والد یا بیٹے سے افضل ہو[تواس لحاظ سے اسے بھی مقام حاصل ہوگا]۔لیکن اگر ان میں سے کسی ایک کو کسی سبب کی بنا پر تقوی میں زیادہ نسبت حاصل ہوتووہ اپنے اس تقوی کی وجہ سے افضل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو راضی کیا ‘اور نیک اعمال کیے تو [انہیں یہ بلند مقام نصیب ہوا؛ جو کہ محض ]سسرالی رشتہ کی وجہ سے نہیں ملا‘ بلکہ کمال اطاعت کی وجہ سے ملا تھا۔ جیسا کہ ان میں سے کوئی ایک اگر برائی کا کام کرتی تو انہیں دوہرا عذاب معصیت کی قباحت کی وجہ سے ہوتا۔ پس صاحب شرف انسان جو اپنے آپ پر تقوی کو لازم کرلیتا ہے تو اس کا تقوی دوسروں سے زیادہ کامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ جب بادشاہ عدل قائم کرتا ہے تو اس کا عدل و انصاف کرنے انسان کے اپنے گھر میں عدل انصاف سے بہت زیادہ بڑا اور کامل ہوتا ہے۔اور ایسے ہی جب کوئی انسان کسی خیر کے کام کا پکا ارادہ کرلیتا ہے ‘ تو وہ اس میں سے جس قدر
Flag Counter