ہوئے ہر ایک انسان پر ایسی چیز واجب کرتے ہیں جو کہ اللہ اور اس کے رسول نے واجب نہیں کی۔ خصوصا جب کہ ان کا اختیار کردہ طریقہ بھی اپنے مقدمات میں جرح و تنقید وقدح سے خالی نہ ہو۔جیسا کہ یہ لوگ حدوث عالم پر حدوث اجسام سے استدلال کرتے ہیں ۔اور ایک گروہ ایسا ہے جو اس مناظرانہ طریقہ کار پر کلی طور پر تنقید و جرح کرتا ہے۔اور نظر و مناظرہ کے تمام ابواب کو بند کرتا ہے۔ان امور کے مطلق طور پر حرام ہونے اور لوگوں کے اس سے بے نیاز ہونے کا دعوی کرتا ہے۔پس اس طرح دونوں گروہوں کے حمایتیوں کے درمیان فتنہ پیدا ہوتا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ علم کے حصول کے بہت سارے طریقے ہیں ۔بسا اوقات اللہ تعالیٰ بہت سارے لوگوں کو ان متعین طرق سے بے نیاز کردیتے ہیں ۔بلکہ صرف علوم ضروریہ میں ایک نظر سے انہیں یہ علوم حاصل ہوجاتے ہیں ۔ اور اگرچہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نفس کو ان ضروری علوم کے لیے مستعد کردیتی ہے حتی کہ اسے الہام سے یہ علوم حاصل ہوجاتے ہیں ۔ اورلوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہوتا جسے انتہائی گہری نظر یا ان طرق کی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے کہ یاتوجو چیز دوسروں کو حاصل ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی یا پھر انہیں کوئی ایسا شبہ پیش آجاتا ہے جو نظر ومناظرہ کے بغیر ختم نہیں ہوسکتا۔
ایسے ہی سالکین کے ساتھ بہت سارے احوال پیش آتے ہیں جیسے کہ ذکر اور قرآن کی سماعت کے وقت چیخ نکلناغشی طاری ہونا اور اضطراب کی کیفیت کا پیدا ہوجانااور شہود مخلوقات سے فنا ہوجانا۔اور دل میں ایک ایسی خاص کیفیت کا پیدا ہوجانا کہ دل میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور چیز کا مشاہدہ باقی نہ رہے۔(اسے تصوف کی اصطلاح میں اصطلام کہتے ہیں )۔ یہاں تک کہ اس کے نفس سے مشہود بھی غائب ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کیفیت کو ہر سالک کے لیے لازم قرار دیتے ہیں ۔اور ان میں سے بعض اسے منتہائے مقصود قراردیتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی اور مقام ہی نہیں ۔اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اس پر تنقید و جرح کرتے ہیں ۔اور اسے ایسی بدعت قرار دیتے ہیں جو کہ عصر صحابہ کے بعد ایجاد کرلی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ کیفیت بعض سالکین کے ساتھ ان پر وارد ہونے والی قوتاور تمکین محبت میں ضعف قلب کے اعتبار سے پیش آتی ہے۔جوکوئی یہ کیفیت نہیں پاتا تو کبھی یہ اس کی کمال قوت اور کمال ایمان کی وجہ سے ہوتا ہے۔اور کبھی کمزور ایمان کی وجہ سے ۔ جیسا کہ بہت سارے باطل پرست فساق اور اہل بدعت کیساتھ ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات اس طریقہ کے لوازمات میں سے نہیں ۔بلکہ بہت سارے سالکین اس سے مستغنی ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ معاملہ خود غایت نہیں ہے۔ بلکہ وہ کمال شہود ہے۔اس طرح سے کہ خالق اور مخلوق کے مابین تمیز ہوسکے۔اور اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات کے معانی کا مشاہدہ ہوسکے۔مگر اس میں کوئی ایک امر انسان کودوسرے امر سے غافل نہ کردے۔یہ شہود میں کمال اور قوت ایمانی ہے۔ لیکن یہ بات بھی ضرور ہے کہ جس کے ساتھ یہ احوال پیش آتے ہیں وہ اتنی ہی مناسبت سے پیش آتے ہیں جتنی ضرورت ہو۔دوسرے مقام پر ان امور کی پوری تفصیل گزرچکی ہے۔
مقصود یہ ہے کہ ان خوارق کے مراتب کو پہچانا جائے اور یہ کہ بیشک یہ چیزیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو ایسے اولیا
|