یہ جاننا ضروری ہے کہ اولیا اللہ کے لیے خوارق عادات ان کی ضرورت کے مطابق پیش آتی ہیں ۔پس ان میں سے جو کوئی کفار و منافقین یا فاسقین کے درمیان مقیم ہو ا ور اسے یقین زیادہ کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے لیے اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ جیسا کہ اندھیرے میں روشنی کا ظاہر ہونا وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات مفضول کی اتنی کرامات ہوتی ہیں جتنی فاضل کی نہیں ہوتیں لیکن مفضول کی ضرورت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔
یہ خوارق بذات خود مقصود و مطلوب نہیں ہوتیں بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ایک وسیلہ ہوتی ہیں ۔جو کوئی انہیں ہی غایت سمجھ اور اس وجہ سے عبادت کرنے لگے تو پھر شیطان اس سے کھلواڑ کرنے لگتا ہے۔اور اس کے لیے ایسی ہی خوارق کو ظاہر کرتا ہے جو کہ کاہنوں اور جادوگروں کے کرتوتوں کی جنس سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور جو کوئی کرامت یا خارق عادت تک رسائی صرف اس ذریعہ سے چاہتا ہے اور اسے اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے ت واس کے حق میں کرامات ان لوگوں کی نسبت زیادہ کثرت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں جتنی ان سے بے نیاز لوگوں کے حق میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تابعین میں کرامات کے واقعات صحابہ کرام کی نسبت زیادہ کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں ۔
علم میں اس کی مثال: اسماء اور لغات کا علم ہے۔اس لیے کہ نحو اور لغت کی معرفت سے مقصود کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا فہم حاصل کرنا ہے۔ اوریہ کہ انسان بول چال میں اہل عرب کے کلام کے مطابق چل سکے۔صحابہ کرام علم نحوسے مستغنی تھے۔ ان کے بعد آنے والے لوگوں کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی ۔چانچہ عربی زبان کے قوانین میں ان کے کلام کو حجت مل گئی ۔ ایسی کوئی چیز عصر صحابہ میں نہیں پائی جاتی تھی۔اس لیے کہ اس وقت زبان دانی میں کمی بہت کم تھی اور صحابہ کرام علم کی کمال پر فائز تھے۔ایسے ہی بعد میں آنے والوں کا کلام اسما الرجال اور ان کے واقعات میں حجت سمجھا جانے لگاایسی کوئی چیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں نہیں تھی۔ اس لیے کہ یہ وسائل ایک دوسرے مقصد کے لیے طلب کیے جاتے ہیں ۔ایسے ہی مناظرہ و بحت کی ضرورت متأخرین میں بہت زیادہ پیش آئی جب کہ صحابہ کرام اس سے مستغنی تھے۔
ایسے ان لوگوں کے لیے قرآن مجید کا ترجمہ کرنا جو عربی میں قرآن نہ سمجھتے ہوں ۔ضرورت تھی کہ فارسی ترکی اور رومی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا جائے ۔جب کہ صحابہ کرام اس سے مستغنی تھے۔ایسے ہی بہت سارے لوگوں کے لیے تفسیر و معانی کے بیان کی ضرورت پیش آئی جب کہ صحابہ کرام اس سے بے نیازتھے۔
پس جو کوئی علم نحو؛معرفۃ الرجال اورنظری و جدلی اصطلاحات جوکہ نظروہ مناظرہ پر متعین ہوتی ہیں انہیں بذات خودمقصودبناتا ہے تووہ خیال کرتا ہے کہ ان علوم پر عبور رکھنے والے صحابہ کرام سے بڑے عالم ہیں ۔جس طرح کہ دوسرے بھی بہت سارے لوگ جن کی بصیرت کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیاہے وہ بھی یہی خیال کرتے ہیں ۔اور جس کو یہ علم حاصل ہوجائے کہ یہ علوم بذات خود مقصود نہیں (بلکہ دوسرے علوم کو سمجھنے کے لیے بطور وسیلہ کے مقصود ہیں )تووہ جان لیتا ہے لیتا ہے کہ وہ صحابہ کرام جو اصل علوم مقصودہ پر دسترس رکھتے تھے وہ ان لوگوں سے بہت زیادہ افضل ہیں جنہیں ان علوم کی معرفت حاصل ہوخواہ وہ اپنے فن میں کتنا ماہر ہی کیوں نہ ہو۔ یہی حال خوارق کا بھی ہے۔
|