Maktaba Wahhabi

506 - 764
اس میں جھوٹ ہونے کی نشانیاں صاف واضح ہیں ۔ ایسے ہی امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس کا ذکر تک نہیں کیا حالانکہ آپ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں احادیث جمع کی ہیں ۔جن میں بہت ساری روایات ضعیف ہیں ۔ ایسے ہی امام نسائی اور ابوعمر بن عبد البر رحمہما اللہ کا حال ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے آپ کے فضائل میں خصائص علی کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ شیعہ مصنف نے کہا ہے: ابو جعفر الطحاوی نے علی بن عبدالرحمن سے حکایت کیا ہے وہ احمدبن صالح المصری سے روایت کرتا ہے وہ کہا کرتا تھا: جو انسان علم کی راہوں پر چلنے والا ہو اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ رد شمس کی حدیث کے اسماء حفظ کرنا بھول جائے اس لیے کہ یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔ میں کہتا ہوں : احمد بن صالح نے اسے پہلی سند سے نقل کیا ہے۔لیکن اس کی اسناد اور الفاظ جمع نہیں کیے۔ اور بھی کئی چیزیں ایسی ہیں جن سے اس روایت کا جھوٹ۔ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔اس سند کے راوی احمد بن صالح کے ہاں مجہول ہیں ۔ اس کے لیے ان کا جھوٹاہونا ظاہر نہیں ہوا۔ اور نہ ہی اسے روایت کے جھوٹ ہونے کا پتہ چل سکا۔ اور امام طحاوی کی عادت نہیں ہے کہ وہ حدیث پر محدثین کے ضوابط کے مطابق تنقید کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے شرح معانی الاثار میں مختلف احادیث جمع کی ہیں ۔ آپ غالب طور پر اسی روایت کو ترجیح دیتے ہیں جو قیاس کی جہت سے ترجیح پاتی ہو۔اس لیے کہ قیاس ان کے ہاں حجت ہے۔ جبکہ اسنادی اعتبار سے ان کے ہاں اکثر روایات مجروح ہوتی ہیں ان میں سے کسی کی صحیح سند ثابت نہین ہوتی۔ اورنہ ہی آپ اس چیز سے کوئی تعرض کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اسناد کے علوم کی اتنی معرفت نہیں تھی جتنی معرفت دوسرے اہل علم کو ہوتی ہے۔ اگرچہ آپ نے بہت زیادہ احادیث بھی روایت کی ہیں اور ایک فقیہ عالم بھی تھے۔ شیعہ مصنف کہتا ہے: ابوعبداللہ بصری نے کہا ہے: اس نقل کے تقاضا کے مطابق سورج کے غروب ہونے کے بعد اس کا لوٹ کر آنا متأکد ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اگرچہ امیر المؤمنین کی فضیلت ہے لیکن درحقیقت یہ نبوت کے معجزات میں سے ہے۔معجزات نبوت میں سے آپ کی فضائل میں یہ واقعہ کئی وجوہات کی بنا پر دوسرے معجزات سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ اس کے جھوٹ ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم محدثین نے فضائل علی میں وہ روایات بھی نقل کی ہیں جو معجزات نبوت میں سے نہیں ہیں ۔اور انہیں صحاح و سنن اور مسانید میں جگہ دی ہے۔انہیں معروف اور ثقہ اعلام راویوں سے نقل کیا گیاہے۔اگریہ روایت بھی ثقات کی روایات میں سے ہوتی تو وہ محدثین اس کو بھر پور رغبت کے ساتھ روایت کرتے۔ اس لیے کہ وہ لوگ حدیث کی صحت بیان کرنے کے بڑے حریص تھے۔ لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت کو کسی ایسی سند سے نقل نہیں کیا جس کے راوی مشہور اور ثقہ اہل علم ہوں ۔ اور نہ ہی ان راویوں کی عدالت اورثقاہت کے بارے میں کچھ علم ہوسکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خود اس روایت میں
Flag Counter