النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال: یا علِی صلیت العصر؟ قال: لا یا رسول اللّٰہِ ما صلیت؛ کرِہت أن أضع رأسک مِن حِجرِی وأنت وجِع۔ فقال رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ادع یا علِی أن ترد علیک الشمس۔‘‘فقال علِی: یا رسول اللّٰہِ! ادع أنت أؤمِّنُ۔‘‘ ۔ قال: یا ربِ! إِن علِیا فِی طاعتک وطاعۃِ رسولِک؛ فاردد علیہِ الشمس ۔ قال أبو سعِید: فواللّٰہِ لقد سمِعت لِلشمسِ صرِیرا کصرِیرِ البکرۃ، حتی رجعت بیضاء نقِی۔))
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔میں نے دیکھا کہ آپ کا سر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں ہے اور سورج غائب ہوچکا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ نے پوچھا: اے علی ! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھی ہے ؟انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا ۔ اور مجھے یہ بات ہر گزگوارہ نہ ہوئی کہ میں آپ کا سر مبارک اپنی گود سے ہٹاؤں اور آپ کوتکلیف ہورہی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! دعاء کرو کہ سورج واپس کردیا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بلکہ اللہ کے رسول آپ دعا کریں میں آمین کہوں گا۔ تو رسول اللہ نے دعافرمائی: اے اللہ! علی رضی اللہ عنہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا ۔ پس سورج کو واپس لوٹا دے۔ حضرت ابو سعیدفرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! ہم نے سورج کی ایسے آوازسنی جیسے آری کی آواز ہوتی ہے ۔اور سورج بالکل سفید اور صاف ہوگیا۔‘‘
میں کہتا ہوں : اس طرح کی اسناد سے کوئی دلیل ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس کے بہت سارے راوی ایسے ہیں جن کے عدل و ضبط کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکتا۔اورنہ ہی وہ ناقلین علم میں سے ہیں ۔اورنہ ہی اہل علم کی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر ہے۔ یہ تو اس روایت کے بہت سارے راویوں کا حال ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا؛ اورصرف ایک راوی میں بھی یہ صفات پائی جاتیں تو اس سند سے حدیث ثابت نہ ہوسکتی۔ تو پھر جب بہت سارے یا اکثر راوی ہی اس بیماری کا شکار ہیں ‘تو پھر اس کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے ؛ خصوصاً جب کہ اس سند میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جھوٹ بولنے میں بڑے معروف ومشہور ہیں ۔ مثال کے طور پر عون بن ثابت ۔
نیزاس روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو [سردرد کی] تکلیف ہورہی تھی۔اوریہ کہ سورج کے طلوع کے وقت آپ نے ایسی آواز سنی جیسے آرے سے کاٹنے کی آواز ہوتی ہے۔ یہ بات بھی عقلاً باطل ہے۔جب کہ باقی راویوں نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کیا کرتے اورآپ کے فضائل بیان کیا کرتے تھے ؛ اگر آپ کے پاس یہ حدیث بھی ہوتی ؛ تو آپ کے مشہور و معروف ساتھی و اصحاب بھی اسے روایت کرتے۔جس طرح انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کی دیگر احادیث روایت کی ہیں ۔مثال کے طورپر حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ خوارج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :آپ نے فرمایا: ’’ انہیں دو گروہوں میں سے
|