Maktaba Wahhabi

501 - 764
حسین مقتول: اگر اس سے مراد حسین بن علی ہیں ۔تو آپ کی شان اس سے بلند ہے کہ وہ کسی ایک سے روایت کریں جوکہ اسماء بنت عمیس سے روایت کررہا ہو۔خواہ فاطمہ اس کی بہن ہو یا بیٹی۔اور اگریہ قصہ سچا ہوتا تو انہیں دوسروں سے زیادہ اس کے بارے میں علم ہوتا۔ اس نے اپنے والد اور دوسرے لوگوں سے سنا ہوتا۔یا پھر اسما سے سنا ہوتا۔ مگر آپ نے نہ ہی ان کی بیٹی سے نہ ہی بہن سے اور نہ ہی اسما سے یہ روایت نقل کی ہے۔مگر یہ راوی حسین بن علی نہیں ہے بلکہ کوئی دوسرا ہے۔یا پھر عبداللہ بن الحسن ابو جعفر ہے۔ وہ بھی اپنے پہلے دو ساتھیوں کی طرح ہے۔ حدیث صرف اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اہل علم کے ہاں اس کی روایت ایسے عادل و ضابط اور ثقہ راویوں سے ہو جن کو محدثین جانتے ہوں ۔ صرف اس کی نسبت کا علم ہونا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ بھلے اس کی نسبت کسی کی طرف ہو۔ صحابہ اور تابعین کے بیٹوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی احادیث سے استدلال نہیں کیا جاتا اگرچہ اس کا والد بہترین مسلمانوں میں سے تھا۔ اگرچہ اس نے یہ روایت علی بن ہاشم سے نقل کی ہے۔مگر اس سے نقل کرنے والا عباد بن یعقوب رواجنی ہے۔ ابن حبان اس کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ یہ رافضی داعی تھا۔ مشاہیر کا نام لیکر منکر روایات نقل کیا کرتا تھا۔ اس لیے ترک کیے جانے کا مستحق ہے۔ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فضائل اہل بیت اوردیگر مثالب میں ایسی روایت نقل کی ہیں جن کا انکار کیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے اس سے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں جن کی صحت معروف ہے۔وگرنہ اس سے قاسم المطراز کی حکایت جس میں اس نے کہا ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک سمندر کھودا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس میں پانی جاری کیا۔یہ ایسی روایت ہے جو کہ کھلم کھلا تنقید اورقدح ہے۔ شیعہ مصنف نے کہا ہے:اس روایت کو اسماء سے ان لوگوں کے علاوہ دوسروں نے بھی روایت کیا ہے۔ اور ابو العباس بن عقدہ کی سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔ یہ اپنے حفظ کے باوجود شیعہ کے جھوٹ جمع کیا کرتا تھا۔ ابو احمد بن عدی نے کہا ہے: میں نے بغداد کے مشائخ کو دیکھا ہے وہ اسے برے الفاظ میں یاد کیا کرتے تھے۔اور وہ کہتے تھے: حدیث کو دین نہیں سمجھتااور کوفہ کے مشائخ پر جھوٹ بولتا ہے۔ اور ان کے نام پر نسخے تیار کرکے انہیں روایت کرنے کو کہتا تھا۔ جب امام دارقطنی رحمہ اللہ سے ابن عقدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’وہ بہت برا آدمی ہے۔‘‘ یہ ابن عقدہ کہتا ہے: (( حدثنا یحی بن زکرِیا، أخبرنا یعقوب بن معبد، حدثنا عمرو بن ثابِت، قال: سألت عبد اللّٰہِ بن حسنِ بنِ حسنِ بنِ علِی عن حدیثِ ردِ الشمس علی علِی: ہل ثبت عِندکم؟ فقال لِی: ما أنزل اللّٰہ فِی علِی فِی ِکتابِہِ أعظم مِن ردِ الشمسِ۔ قلت: صدقت جعلنِی اللّٰہ فداک، ولِکنِی أحِب أن أسمعہ مِنک۔ قال:حدثنِی عبد اللّٰہِ، حدثنِی أبِی الحسن، عن أسماء بِنتِ عمیس أنہا قالت: أقبل علِيٌّ ذات یوم وہو یرِید
Flag Counter