تھا۔یہ بات اہل علم کے ہاں تواتر کے ساتھ مشہور ہے۔ خندق کا واقعہ اس سے پہلے کا ہے جو کہ سن چار یا پانچ ہجری میں پیش آیا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾ [البقرۃ: 238]
’’ نمازوں کی حفاظت کرو ‘ اوردرمیان والی نماز کی ۔‘‘
خندق میں تاخیرکا حکم منسوخ ہوگیا۔ حالانکہ اکثر اہل علم کے نزدیک یہ حکم قتال کے لیے خاص تھا۔اور اگرچہ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ قتال کے ساتھ خاص ہے جیسے ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ توپھر بھی علما کرام رحمہم اللہ میں سے کسی ایک نے بھی مال غنیمت کی تقسیم کی غرض سے نماز فوت کردینے کو جائز نہیں کہا۔ اس لیے کہ تقسیم غنیمت تو فوت نہیں ہوسکتی نماز فوت ہوجاتی ہے۔
اس روایت میں ہے کہ سورج مسجد کے درمیان میں تک واپس آگیا ۔یہ ایک کھلا ہواجھوٹ ہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے عجوبوں میں سے ایک ہے ۔ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہوتا تولوگوں کا جم غفیر اسے نقل بھی کرتا۔اس قصہ میں یہ بھی ہے کہ جب سورج غروب ہوا تو اس کی آواز ایسے سنائی دی جیسے آری سے کاٹنے کی آوازہوتی ہے۔ یہ بھی ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ کیونکہ اس چیز کا کوئی موجب ہی نہیں ۔نیز سورج کے غروب کے وقت اس کا دوسرے اجسام سے ٹکرا ؤبھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اتنی بڑی آواز پیدا ہو جو چوتھے فلک سے زمین تک پہنچ جائے۔پھر اگر یہ بات حق ہوتی تو یہ کائنات کی سب سے بڑی عجیب بات ہوتی جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نقل کرتے جنہوں نے خیبر میں اور دوسرے مواقع کی چھوٹی چھوٹی خبریں بھی روایت کی ہیں ۔ اور یہ اسناد بھی ایسی ہیں جن سے اگر کوئی ایسی چیز بھی روایت کی جاتی جس کا ہونا ممکن ہوتا تب بھی کوئی چیز اس سند سے ثابت نہ ہوتی۔اس لیے کہ علی بن ہاشم بن البرید انتہائی غالی شیعہ تھا۔وہ ہرایک سے ایسی روایات نقل کیا کرتا تھا جو اس کی خواہشات کے موافق ہوں اوران کومزید تقویت دیں ۔اوروہ صباح سے روایت کرتا ہے جس کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کون تھا۔ جب کہ اس طبقہ میں صباح بن سہیل کوفی بھی پایا جاتاہے جو کہ حصین بن عبدالرحمن سے روایت کرتا ہے۔ امام بخاری اور ابو زرعہ اور ابوحاتم رحمہم اللہ نے اسے منکر الحدیث قراردیا ہے۔دار قطنی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مشاہیر کے نام پر منکر روایات نقل کرتا ہے لہٰذا اس کی روایت سے استدلال کرنا جائز نہیں ۔
ایک اور آدمی بھی ہے جسے صباح بن محمد بن ابی حازم البجلی الاحمسی کوفی کہا جاتا ہے جو کہ مرہ الہمدانی سے روایت کرتا ہے۔ اس کے بارے میں ابن حبان فرماتے ہیں : ثقات کے نام پر موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔
ایک چوتھا آدمی صباح العبدی ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں :مجہول انسان ہے۔ ایک صباح بن مجالد ہے جو کہ بقیہ سے روایت کرتا ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : غیر معروف انسان ہے۔ اس کا شمار بقیہ کے مجہول مشائخ میں سے ہوتا ہے۔
|