Maktaba Wahhabi

499 - 764
میں رہے یہاں تک کہ سورج واپس پلٹ گیا؛ فرمایا کہ : سورج ڈوب گیا یا قریب تھا کہ ڈوب جائے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی ختم ہوئی تو آپ نے پوچھا : اے علی ! کیاتم نے نماز پڑھی ہے؟ تو عرض کیا : نہیں ۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی:’’ اے اللہ! علی کے لیے سورج کوواپس لوٹا دے ۔‘‘ تو سورج واپس پلٹ آیا یہاں تک کہ آدھی مسجدتک پہنچ گیا۔‘‘ اس روایت کا تقاضا ہے کہ سورج عصر کے قریب کے وقت پر پلٹ گیا ہو۔اور یہ قصہ مدینہ کا ہے۔جب کہ پہلی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ خیبر کے راستہ میں پیش آیا۔اور سورج پہاڑ کی چوٹیوں پر ظاہر ہوا تھا۔ عبدالرحمن بن شریک کے بارے میں ابو حاتم رازی فرماتے ہیں : انتہائی بودی روایات نقل کرتا ہے۔نیز ان کے علاوہ بھی دیگر کئی محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔ اس کی چوتھی روایت یوں ہے: ((محمدِ بنِ عمر القاضِی-وہو الجعانِی- عنِ العباسِ بنِ الولِیدِ، عن عباد وہو الرواجِنِی ، حدثنا علِی بن ہاشِم، عن صباحِ بنِ عبدِ اللّٰہِ بنِ الحسینِ أبِی جعفر، عن حسین المقتولِ، عن فاطِمۃ، عن أسماء بِنتِ عمیس، قالت: کان یوم خیبر شغل علِیاًّ ما کان مِن قسمِ المغانِمِ، حتی غابتِ الشمس أو کادت۔ فقال رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم: أما صلیت؟ قال: لا۔ فدعا اللّٰہ فارتفعت حتی توسطتِ السماء، فصلی علِی فلما غابتِ الشمس سمِعت لہا صرِیرا کصرِیرِ المِنشارِ فِی الحدید۔)) حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں : خیبر کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ مال غنیمت کی تقسیم کی وجہ سے مشغول ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا یا غروب ہونے کے قریب ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے نماز نہیں پڑھی ؟ تو عرض کیا: نہیں ۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ؛پس سورج پھر بلند ہوگیا ‘یہاں تک کہ وسط آسمان تک آگیا؛ پس حضرت علی نے نماز پڑھی۔ جب سورج غروب ہوا تو اس کی آواز ایسے سنائی دی جیسے آری سے کاٹنے کی آوازہوتی ہے۔ چوتھی روایت کے یہ الفاظ پہلی تینوں روایات کے الفاظ کے متناقض ہیں ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس حدیث کو روایت کرنے والا کوئی صادق و عادل و ضابط نہیں ۔ بلکہ یہ حقیقت میں کسی انسان نے اپنی طرف روایت گھڑ لی اور پھر اس میں دوسرے ہاتھ بھی اپنا کام دیکھا گئے۔اورایک دوسرا قصہ اس کے مشابہ اوربھی گھڑلیا۔ وہ قصہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غنیمت کی تقسیم میں مشغول ہوگئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہیں ۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کا مال غنیمت تقسیم ہی نہیں کیا ۔ اور نہ ہی نماز چھوڑ کر مال غنیمت کی تقسیم میں مشغول ہونا جائز ہے۔ خیبر کا واقعہ خندق کے بعد سن سات ہجری میں پیش آیا۔اس سے پہلے سن چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آچکا
Flag Counter