Maktaba Wahhabi

498 - 764
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی یہاں تک کہ سورج واپس لوٹایا گیا ۔‘‘ یہ روایت صرف اس انسان سے قبول جاسکتی ہے جس کی عدالت و ضبط کا علم ہو۔ مجہول الحال سے حدیث قبول نہیں کی جا سکتی۔توپھر کیسے یہ ممکن ہوسکتا ہے جب کہ محدثین جانتے ہیں کہ امام سفیان ثوری اور عبدالرزاق صنعانی جیسے محدثین نے اس سے یہ روایت نقل نہیں کی۔ثوری اور صنعانی کی روایات محدثین کے ہاں معروف ہیں اور ان کے اصحاب ومشائخ بھی محدثین کے ہاں معروف ہیں اوراسے خلف بن سالم نے بھی روایت کیا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان لوگوں نے اس روایت نقل کیا ہے تو پھر بھی اس کی سند میں ام اشعث مجہول راویہ ہیں ان کی روایت سے حجت قائم نہیں ہوتی۔ اس کی دوسری سند محمد بن مرزوق کی سند سے ہے۔وہ کہتاہے: ((حدثنا حسین الأشقر، عن علِیِ بنِ ہاشِم، عن عبدِ الرحمنِ بنِ عبدِ اللّٰہِ بنِ دِینار، عن علِیِ بنِ الحسینِ، عن فاطِمۃ بِنتِ علِی، عن أسماء بِنتِ عمیس ....‘‘ الحدیث۔)) میں کہتا ہوں : حسین اشقر کے بارے میں علما کرام کا کلام پہلے گزرچکاہے۔ اگراس روایت کے تمام راوی ثقہ ہوتے اور سند بھی متصل ثابت ہوتی توپھر بھی اس روایت سے کوئی مسئلہ ثابت نہ ہوسکتا۔ تو پھر اس وقت کیاکہا جاسکتا ہے جب یہ ثابت ہی نہ ہو۔ علی بن ہاشم بن البرید کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :علی اور اس کا باپ دونوں غالی شیعہ تھے ۔ ابن حبان فرماتے ہیں : غالی شیعہ تھا اور مشاہیر کا نام لیکر منکر روایات نقل کیا کرتا تھا۔ محدثین کا اس سے وہ روایات نقل کرنا جو کسی دوسری سند سے بھی ثابت ہوں اس سے اس کی انفرادی روایات کا ثابت ہونا واجب نہیں ہوتا۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس رافضی مصنف اور اس کے بعد کے لوگوں نے اسے فاطمہ بنت حسین کی سند سے قرار دیا ہے۔ جب کہ یہ فاطمہ بنت علی ہے فاطمہ بنت حسین نہیں ۔ ایسے ہی فاطمہ سے اس کی تیسری سند میں عبدالرحمن بن شریک ہے‘ وہ کہتاہے: (( حدثنا أبِی، عن عروۃ بنِ عبدِ اللّٰہِ، عن فاطِمۃ بِنتِ علِی، عن أسماء، عن علِیِ بنِ أبِی طالِب، رُفِع إِلی النبِی رضی اللّٰہ عنہم وقد أوحِی إِلیہِ فجللہ بِثوبِہِ، فلم یزل کذلِک حتّی أدبرتِ الشمس، یقول: غابت أو کادت تغِیب، وأن نبِی اللّٰہِ رضی اللّٰہ عنہم سرِی عنہ، فقال: أصلیت یا علِی؟ قال: لا۔ قال: اللہم رد علی علِی الشمس، فرجعتِ الشمس حتی بلغت نِصف المسجِدِ۔)) حضرت علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مرفوعاً بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی ہورہی تھی؛ تو آپ نے اپنے کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کرلیا۔ آپ اسی حالت
Flag Counter