تیسری سند: اس کی تیسری سند میں عمار بن مطر ہے جو کہ فضیل بن مرزوق سے روایت کرتا ہے۔ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقات کے نام پر منکر روایات بیان کرتا ہے۔
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : باطل احادیث بناکر جھوٹ بولا کرتا تھا۔
ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : متروک الحدیث ہے۔[1]
اس کی پہلی سند میں عبیداللہ بن موسیٰ العبسی ہے۔[2] بعض اسناد میں لفظ عن سے فضیل سے روایت کرتا ہے اور بعض روایات میں حدثنا کہتا ہے۔اگراس کاحدثنا کہنا ثابت نہ ہو تو پھر اس بات کا امکان رہتا ہے کہ اس نے فضیل سے سنا ہی نہ ہو۔اس لیے کہ یہ شیعہ دعاۃ میں سے تھا اور شیعیت کی احادیث جمع کرنے کا بڑا حریص تھا۔ اس لیے وہ اپنی غرض کی تکمیل کے لیے کذابین سے بھی روایات نقل کرلیا کرتا تھااور اپنے اس گورکھ دھندے میں بڑا ہی مشہور تھا اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ۔اگرچہ بعض لوگوں نے اس کو ثقہ بھی کہہ دیاہے؛اورکہا ہے کہ جھوٹ نہیں بولتا۔یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے یا نہیں ؛ لیکن مشہور جھوٹوں سے روایات ضرور نقل کرتاہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ اس کی وہی روایات نقل کرتے ہیں جن کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ وہ کسی دوسری صحیح سند سے ثابت ہے۔جب کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس سے ایک روایت بھی نقل نہیں کی۔ مصنف نے کہاہے:ہماری پیش کردہ روایات کے علاوہ بھی فاطمہ سے اس کی دیگر روایات منقول ہیں ۔
پھر یہ روایت بھی ایسی اندھیرسند کیساتھ مروی ہے کہ اس کا جھوٹ ہونا ہر انسان پر ظاہر ہوجاتا ہے جسے معرفت حدیث سے ادنی سی بھی دلچسپی ہو۔ اس نے ابو حفص کتانی کی حدیث روایت کی ہے اور کہاہے:
(( حدثنا محمد بن عمر القاضِی ہو الجعانِی حدثنا محمد بن ِإبراہِیم بنِ جعفر العسکرِی مِن أصلِ کِتابِہِ، حدثنا حمد بن محمدِ بنِ یزِید بنِ سلیم، حدثنا خلف بن سالِم، حدثنا عبد الرزاقِ، حدثنا سفیان الثورِی، عن أشعث بنِ أبِی الشعثائِ، عن أمِہِ، عن فاطِمۃ، عن أسماء أن النبِی رضی اللّٰہ عنہم دعا لِعلِی حتّی ردت علیہِ الشمس....))
|