Maktaba Wahhabi

495 - 764
ہے؟ اگر یہ واقعہ واقعی حق ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور و کھلے ہوئے معجزات میں سے ہوتا۔ جب کہ اصحاب صحاح ومسانید میں سے کسی ایک نے بھی اسے نقل تک نہیں کیا۔اور نہ ہی علما اسلام اور حفاظ حدیث میں سے کسی ایک نے اسے روایت کیا ہے اورنہ ہی معتمد کتب احادیث میں اس کا کوئی اتا پتہ ملتا ہے۔ پہلی سند سے قطری نے عون سے اور اس نے اپنی والدہ سے روایت کیا ہے وہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں ۔عون اور اس کی ماں کی عدالت اور حفظ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں اورنہ ہی یہ لوگ علم نقل کرنے میں معروف ہیں ۔اورنہ ہی کسی معمولی سی چیز میں ان کی روایات سے استدلال کیا جاسکتا ہے تو پھر اتنے بڑے مسئلہ میں ان سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے؟اورنہ ہی اس عورت نے خود حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے سنا ہے۔ شاید کہ اس نے کسی ایسے سے سن لیا ہو جو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے اس کوبیان کرتا ہو۔ اس مصنف نے ابن ابی فدیک کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے اسے ثقہ کہا ہے اور قطری کے بارے میں بھی کہا ہے کہ وہ ثقہ ہے ۔لیکن اس کے بعد والے کوثقہ کہنا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔بلکہ صرف ان کا نسب بیان کرنے پر گزارہ کرلیا۔ کسی انسان کا صرف نسب معلوم ہونے سے یہ ضروری نہیں ہوجاتا کہ وہ آدمی حافظ اور ثقہ بھی ہو۔ جب کہ اس کی دوسری سند کا مدار فضیل بن مرزوق پر ہے۔اگرچہ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تو پھر بھی یہ ثقہ راویوں کی طرف غلط روایات کا انتساب کرنے میں معروف ہے۔علامہ ابن حبان رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں : ثقہ لوگوں پر غلط روایات منسوب کرتا ہے۔ اور عطیہ سے موضوع روایات نقل کرتا ہے۔ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ناقابل استدلال ہے۔ یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اس قول سے متناقض نہیں ہے جس میں آپ فرماتے ہیں : میں اس کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ اور امام سفیان رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔ اور یحیی رحمہ اللہ نے بھی ایک بار اسے ثقہ کہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن غلطی کا ارتکاب کرجاتا ہے۔ جب امام مسلم اس کی متابعات روایت کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی منفردات بھی روایت کی جائیں ۔ نیز یہ کہ ابراہیم سے اس کا سماع ثابت نہیں ۔اور نہ ہی ابراہیم کاسماع فاطمہ سے ثابت ہے اور نہ ہی فاطمہ کا سماع اسما سے ثابت ہے۔ حدیث کے ثابت ہونے کے لیے لازم ہے کہ ان تمام راویوں کا عدل و ضبط معلوم ہو اور یہ کہ راویوں کا آپس میں ایک دوسرے سے سماع ثابت ہو۔ جب کہ ان چیزوں کا علم ہمیں نہیں ہوسکا۔ ابراہیم نامی اس راوی سے صحاح و سنن جیسی معتمد کتابوں میں کوئی روایت منقول نہیں اور نہ ہی ان کتابوں میں اس کا کوئی تذکرہ ملتا ہے بخلاف فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا کے۔ ان کی روایات احادیث معروف ہیں ۔ تو پھر ایسی روایت سے کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے جسے کسی ایک بھی معروف عالم نے اپنی کسی معتمد کتاب میں روایت نہ کیا ہو ۔ کسی انسان کے والد کے بڑے عظیم القدر ہونے سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
Flag Counter