ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’من فاتتہ صلاۃ العصر فکأنما وتر أہلہ ومالہ۔‘‘ [سبق تخریجہ]
’’ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا کہ اس کے اہل و مال تباہ ہوگئے ۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ کواس کا علم تھا کہ نماز وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔ آپ نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے ؛ صحیحین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( شغلونا عن الصلاۃ الوسطی صلا ۃالعصر حتی غربت الشمس ملأ اللہأجوافہم وبیوتہم ناراً۔))[1]
’’ انہوں نے ہمیں درمیانی نماز یعنی نماز عصر سے مشغول کردیا ؛ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور گھروں کو آگ سے بھر دے ۔‘‘
یہ خندق کا واقعہ ہے۔ اور خیبر خندق کے بعد پیش آیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ اس قسم کے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کریں ۔اور جبریل امین اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اس فعل پر برقرار رکھیں ۔اور جو کوئی ایسا کرے تو یہ اس کا عیب ہے منقبت نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوایسے عیوب سے منزہ و پاک رکھا ہے۔اور پھر اگرنماز فوت ہوگئی تو سورج کے واپس ہونے سے گناہ ساقط نہیں ہوگا۔
نیز یہ کہ اگریہ قصہ خیبر کی سر زمین پرلشکر کے سامنے پیش آیا ہے؛ اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد چودہ سو سے زیادہ تھی اور یہ لشکر جرار اس منظر کودیکھ رہاتھا؛ ایسے واقعات کونقل کرنے کی وجوہات اور اسباب و دواعی بھی موجود تھے؛ تو پھر یہ بات ممتنع ہوجاتی ہے کہ اسے ایک دو افراد تو نقل کریں مگر اہل علم اتنے اہم واقعہ کو کوئی اہمیت نہ دیں ۔اور پھر اس کے روایت ونقل کرنے والے بھی ایسے مجہول لوگ ہیں جن کی عدالت اورضبط واتقان کا کسی کو کوئی علم نہیں ۔
نیز اس واقعہ کی تمام اسناد میں سے ایک سند بھی ایسی نہیں ہے جس سے اس کے ناقلین کا عدل و ضبط اورسند کا اتصال ثابت ہوسکتا ہو۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر فرمایا تھا:
(( لأعطین الرایۃ غداً رجلا یحب اللّٰہ و رسولہ و یحبہ اللّٰہ و رسولہ)) [2]
’’کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ' اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘
جب کہ سابق الذکر حدیث نہ ہی حدیث کی کسی مستند کتاب میں ہے اور نہ ہی اسے اہل صحاح و سنن اور مسانید نے روایت کیا ہے۔ بلکہ اس کے ترک کرنے اور اس سے اعراض کرنے پر سب کا اتفاق ہے۔ اور اتنا عظیم واقعہ ہوبھی کیسے سکتا
|