ہوئے؛ تو آپ نے آپ سر مبارک؛یا کہا کہ اپنا گال - ان دونوں میں سے پتہ نہیں کون سے الفاظ فرمائے - حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں رکھ دیا۔اور آپ نے نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج غائب ہوگیا....‘‘
پھر یہ حدیث ذکر کی۔
شیعہ مصنف کہتا ہے: ’’ اور فضیل بن مرزوق نے ایک جماعت سے یہ روایت نقل کی ہے ۔ ان میں عبیداللہ بن موسیٰ عبسی بھی ہیں اور امام طحاوی نے اپنی سندسے بھی اسے روایت کیا ہے ؛ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :
(( أن رسول اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہم یوحی إلیہ ورأسہ فی حجر علیٍّ فلم یصل العصر حت غابت الشمس۔))
’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی ہورہی تھی اور آپ کا سر مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا‘اور آپ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا ۔
نیز یہ حدیث عمار بن مطر نے فضیل بن مرزوق سیا بی جعفر العقیلی صاحب کتاب ’’الضعفاء‘‘ کے سے بھی روایت کی ہے۔
میں کہتا ہوں : یہ الفاظ پہلی روایت سے متناقض ہیں ۔اس لیے کہ پہلی روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر میں رکھ کر عصر سے غروب آفتاب تک سوئے رہے۔اور یہ واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر صہباء نامی مقام پر پیش آیا۔ جب کہ دوسری روایت میں ہے آپ جاگ رہے تھے اور جبریل امین آپ پر وحی نازل کررہے تھے۔اور آپ کا سر مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ یہ تناقض دلالت کرتا ہے کہ اس روایت کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ ُاس روایت میں صراحت ہے کہ اس وقت آپ سوئے ہوئے تھے۔ جب کہ اِس روایت میں ہے کہ آپ جاگ رہے تھے اور وحی نازل ہورہی تھی۔یہ دونوں ہی باتیں باطل ہیں ۔اس لیے کہ عصر کے بعد سونا مکروہ و ممنوع ہے۔جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی ہیں آپ کا دل نہیں سوتا۔ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز کیسے فوت ہوسکتی ہے؟
پھر اگر یہ اس جیسے موقعہ پر نماز کا فوت کرنا یا تو جائز تھایا جائز نہیں تھا۔ اگر نماز کو[اپنے وقت سے] چھوڑ دینا اگر جائز تھا توپھر اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مغرب کے بعد عصر پڑہنے پر کوئی ملامت نہیں ۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل نہیں ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر خندق کے موقعہ پر رہ گئی تھی؛ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ اس کے بعد آپ نے نماز پڑھی مگر آپ کے لیے سورج واپس نہیں لوٹایا گیا۔ اورایسے ہی جب سلیمان علیہ السلام کے لیے سورج کو چھپ جانے کے بعد دوبارہ نہیں لوٹایا گیا۔ اور ایسے ہی ایک غزوہ کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے صحابہ نماز فجر کے وقت سو گئے؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔لیکن ان کے لیے سورج کو دوبارہ مشرق کی طرف نہیں لوٹایا گیا۔
اگر نماز کواس کے وقت سے تاخیر کے ساتھ پڑھنا حرام تھا ؛ سو نماز عصر کا وقت فوت کردینا کبیرہ گناہوں میں سے
|