ارشادفرمایا:
((لیس مِنا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بِدعوی الجاہِلِیۃِ۔))
’’ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو اپنا گال پیٹے گریباں پھاڑے اور جاہلیت کا رونا روئے۔‘‘
یہ تو اس وقت کے بارے میں ہے جب مصیبت ابھی تازہ دم واقع ہوئی ہو۔ پھراگر چھ سو ستر(اورہمارے اس عہد میں تیرہ سو ستر) سال بعد ماتم کیا جارہا ہو تو اس کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں ۔وہ لوگ بھی تو قتل ہوئے ہیں جو حضرت حسین سے افضل تھے۔ لیکن مسلمانوں نے اس دن کو یوم ماتم تو نہیں بنایا۔ مسندأ حمد میں فاطمہ بنت حسین سے روایت ہے- یہ اپنے باپ کے قتل کے وقت وہاں پر موجود تھیں - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب بھی کسی انسان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اوراگروہ مصیبت پہلے گزر چکی ہے اوروہ اس مصیبت کو یاد کرتا ہے اور اس پر ’’إنا للہ و إنا إلیہ راجعون‘‘ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اتنا اجر عطا فرماتے ہیں جتنا مصیبت پہنچنے کے دن صبر کرنے پر اسے اجر ملا تھا۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ گزری ہوئی مصیبت یاد آنے پر سنت طریقہ یہ ہے کہ انسان انا للہ و نا لیہ راجعون پڑھے۔ جیسا کہ کتاب وسنت میں اس کی تعلیمات آئی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ oاُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنوبشِرِ الصابِرِینَo﴾
’’ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔‘‘ [البقرۃ۱۵۵۔۱۵۷]
اس سے بھی زیادہ بری حرکت دنبی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تشبیہ دیکر اس کے بال نوچنا ہے۔اور پھر گھی بھری مشک کو حضرت عمر سے تشبیہ دیکر درمیان سے تیز دھار چیز سے پھاڑناہے۔ اورپھر ان کے یہ نعرے ہائے ابو لؤلؤ کا انتقام۔ اور اس کے علاوہ دیگر منکرات اور برائیاں جو کہ رافضیوں میں پائی جاتی ہیں جن کو طوالت کے خوف سے یہاں درج نہیں کیا جارہا ۔ یہاں پر صرف یہ بیان کرنا مقصود ہیکہ جوکچھ ان لوگوں نے برائیاں اور بدعات ایجاد کرلی ہیں اورپھر بدعت کے مقابلہ میں جو بدعات پیدا کرلی گئی ہیں اور انہیں سنت کی جانب منسوب کیا جانے لگا ہیوہ بھی یقیناً انتہائی بری بدعات ہیں ۔سنت تو صرف وہ چیز ہے جسے رسول اللہ نے سنت قراردیا ہوسنت ہر قسم کی بدعت سے بری ہے۔پس جو کچھ عاشورا کے دن کیا جاتا ہے اس کوعید بنانے کی اصل نواصب کی بدعت ہیاور اس دن ماتم و نوحہ کرنا جو کہ انتہائی بری بدعت ہے یہ رافضیوں کی مشہور ترین بدعات میں سے ایک ہے۔ ہم اس موضوع پر اپنی جگہ پر تفصیلی کلام کر چکے ہیں ۔واللّٰہ المستعان ۔
|